میں بھوکی رہ گئی – نور نومبر ۲۰۲۰
’’علی کوریڈور سے گزر رہا تھا اور اْس کے ہاتھ میں مزیدار چاکلیٹ کا کاغذ تھا۔ سچ بتاؤں تو میرے منہ میں پانی بھر آیا۔ سوچا کہ وہ ابھی آئے گا اور میرا منہ کھول کر ریپر اندر ڈال دے گا مگر یہ کیا اْس نے وہ کاغذ ہوا میں اچھال دیا اور یہ جا وہ جا ۔وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ مزید یہ کہ اْس نے پیچھے مڑ کر میرا رال ٹپکاتا چہرہ بھی نہ دیکھا۔ افساس صدا افسوس!!!”
’’اچانک میری نظر دور کینٹین سے نکلتے عادل پر پڑی۔ وہ شوارمے کا کاغذ اْتار رہا تھا۔ اْمید کی ایک کرن جاگی… شاید آج یہ ہی میرے دن کا پہلا نوالہ بن جائے۔ مگر شاید اْس کا راستہ بھی میری اْمیدوں کی طرح طویل ہو چکا تھا۔‘‘
’’اللہ اللہ کر کے اْس نے اپنے قدم میری طرف بڑھائے مگر یہ کیا…اْس نے وہ کاغذ بجائے میرے حوالے کرنے کے، میرے برابر میں پھینک دیا۔ اْ سے کوسنے کودل چاہا مگر صرف یہ سوچ کر جانے دیا کہ شاید وہ میرے موٹے سے پیٹ کو نہیں پہچانتا ہو۔‘‘
’’ اب مجھے بہت شدّت سے بھوک کا احساس ہو رہا تھا۔ میدان سے گزرتے ہر بچے پر میری نظر تھی۔ آج میں…