۲۰۲۴ بتول فروری

ابتدا تیرے نام سے

قارئینِ کرام سلام مسنون
ہم سب کی پیاری آپا، خالہ ، دوست، استاد،محترمہ زہرہ عبدالوحیدداغِ مفارقت دے گئیں۔ ایک طویل عہد کا اختتام ہؤا ان کے ساتھ۔ دین کے تحریکی تصور کو اپنانے کے لیے مولانا مودودیؒ کی دعوت پربالکل ابتدائی دور میں لبیک کہا اور حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی اولین ارکان میں شامل ہوئیں۔ حمیدہ بیگمؒ نے ادارہ بتول قائم کیا تو اس کے ساتھ وابستہ ہوئیں، بورڈ آف گورنرز کی ممبر رہیں،محترمہ بنتِ مجتبیٰ مینا کے بعد ۲۰۲۲ تک ادارے کی چیئر پرسن بھی رہیں۔ تمام زندگی قرآن ِمجید کی تعلیم دی اوربے شمار لوگوں کے لیے دین کےعلم اور ہدایت کا وسیلہ بنیں۔ ان گنت فلاحی پراجیکٹس ان کے دم سے چلتے تھے۔ گاؤں دیہاتوں، کچی بستیوں میں، یاقدرتی آفات کے مواقع پرہر جگہ بذاتِ خود پہنچتیں اور خلقِ خدا کی مدد کرتیں۔ ایک بے حد شفیق، محبتوں سے بھرپور،نیکیوں کے راستے کی مسافر،مگر غلط بات کے آگے ڈٹ جانے والی، خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرنے والی قیمتی ہستی ہم سے جدا ہوگئی۔ان کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ اللہ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائےاور ان کی مساعی جمیلہ کو نہایت قدردانی کے ساتھ مقبول و منظور فرمائے آمین۔
۸ فروری کو…

مزید پڑھیں

عذرا – احسن اختر

عرصہ گزرا ،کراچی کے ایک نواحی علاقے میں ایک مخبوط الحواس نوجوان عورت جس کے نقوش مقامی آبادی سے مختلف نظر آتے تھے گھومتی نظر آتی تھی ۔
کبھی کبھی اس کے چیخنے کی آواز بلند ہوتی اور کبھی اس کے آنسو دل کو چیر دیتے۔
ہمارے دوست خالد صاحب جو ایک فلاحی تنظیم سے وابستہ ہیں انہوں نے اس کا علاج کرایا۔
آج وہ خاتون جس کا نام عذرا ہے۔ ہمارے محلہ کے ایک نوجوان کی اہلیہ ہے اور اپنی زندگی کو سکون سے گزار رہی ہے۔
عذرا سے اس کا سفر زندگی سنا تو دل کٹ گیا۔
٭ ٭ ٭
میانمار ( برما)سمندر کنارے واقع اس گاؤں میں پچاس کے قریب گھرانے آباد تھے، سارے مرد ہی ماہی گیری کے کاروبار سے منسلک تھے۔ گاؤں کے وسط میں ایک مسجد بنادی گئی تھی ، جہاں بچے بچیاں قرآنی و ابتدائی تعلیم حاصل کرتے، علاقے کے بزرگوں نے اہتمام کر رکھا تھا کہ ان کی نسلیں اپنے دین سے ناطہ قائم رکھیں۔
زندگیاں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھیں۔اسی گاؤں میں عذرا اپنے دو چھوٹے بھائیوں اور ماں باپ کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔باپ اپنی کشتی لےکر سمندر میں نکل جاتا ، مچھلیاں پکڑ کر لاتا، اسے بیچ کر اپنے گھرانے کی کفالت کرتا، ماں…

مزید پڑھیں

بہاروں سے پہلے جو آنکھوں پہ بیتی – حمیرا عمر

وہ میری زندگی کا سبق آموز دن تھاجب میں نے بہت کچھ سیکھا۔
جامعہ وہ گہوارہ ہے جہاں لمحہ لمحہ شفقت ہے، محبت ہے، تربیت ہے۔ زندگی کو جنت بنانے کا ادارہ ہے۔ جب ہم جامعہ میں ہوتے ہیں تو ان لمحوں کی قدر و قیمت سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ہمارے لیے ہے۔ لوگوں کی انتھک محنت، سرمایہ، وقت سب کچھ ہم پر صرف ہو رہا ہے پھر بھی غفلت کبھی کبھی ہمیں بہت بے فکر بنا دیتی ہے۔
اصول و قواعد کسی بھی ادارے کی ترقی کی ضمانت ہوتے ہیں، اور جامعہ کے اصول ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان ہی اصولوں پر عمل کروانے کے لیے کبھی انتظامیہ کی طرف سے نرمی اور کبھی سختی سے کام لیا جاتا ہے۔ نرمی ہمیشہ سختی پر غالب رہتی ہے۔ تنبیہہ میں بھی ایک محبت پنہاں ہوتی ہے۔ ہم جب اسکول کی زندگی سے نکل کر جامعہ آتے ہیں تو ہر چیز باہر کی دنیا سے الگ ہوتی ہے۔ انھیں کرنے میں خاصی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔
انتظامیہ کی طرف سے یہ طے ہے کہ پندرہ دن کے بعد تعطیل ہو گی اور تعطیل ختم ہوتے ہی واپس آنا ہے۔ بغیر کسی وجہ کے گھر رکنے پر…

مزید پڑھیں

چھوٹی آپا – فریدہ عظیم

چھوٹی آپا میری خالہ زاد بہن ہیں۔ اتنی پیاری ، اتنی خوبصورت، خوب سیرت، ہنر مند کہ مثال نہیں ملتی۔ وہ جب چھوٹی سی تھیں تو خالہ کا انتقال ہو گیا اورننھی سی جان کو ننھیال والوں نے سنبھال لیا۔ مگر چونکہ ننھیال میں نانی اور خالائیں تو تھیں نہیں جو انھیں بہت توجہ ملتی۔ ماموں تھے اور نانا ۔ نانا اس یتیم بچی کو کندھے سے لگائے رکھتے۔ کھانے پینے کا خیال رکھتے۔ اسکول لاتے لے جاتے، یونہی وہ بارہ برس کی ہو گئیں۔
گھر میں ان کی حیثیت فالتو فرد کی سی تھی۔ چھوٹی سی عمر میں یہ احساس ننھے سے دل کو چھلنی کیے دیتا تھا کہ انھیں پیار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ بڑھ کر اپنے ماموں زاد بہن بھائیوں کے کام کرتیں۔ ممانیوںکی چاکری کرتیں ہر ایک کو خوش کر نے کی کوشش کرتیں مگر کوئی ان سے خوش نہ ہوتا تھا۔ البتہ شکایتیں ہی رہتی تھیں۔ چھوٹی یہ ایسے کیوں کیا … ویسے کیوں کیا البتہ بچے ان سے محبت کرتے تھے۔ سب انھیں چھوٹی آپا کہتے تھے۔
اسکول میں ان کا دل نہ لگتا تھا کیونکہ گھر کے کاموں کی وجہ سے اتنی فرصت نہ ملتی تھی کہ وہ ڈھنگ سے سبق…

مزید پڑھیں

دوراہا – قانتہ رابعہ

’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تم نے بہت شاندار طریقے سے گاجر کا حلوہ بنایا ہے…. ایسے لگتا ہے جیسے نرم نرم سی مٹھاس !جتنا مرضی کھالو بندے کا دل ہی نہیں بھرتا…. بہت زبردست ‘‘۔
ابھی اتنا فقرہ سننا تھا کہ نورین نے اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کیا ،لیکن ایکدم سے اس کے منہ کی مٹھاس کڑواہٹ میں بدل گئی ، اس کا میاں حارث منصور بات جاری رکھتے ہوئے بولا:
’’لیکن یار سچ پوچھو تو اماں جیسا ذائقہ ابھی بھی نہیں بن پایا ….ان کا بنا ہؤا گاجر کا حلوہ سب سے الگ ذائقہ کا ہوتا تھا ….اصل میں وہ گاجر کے حلوے میں مرغی کے انڈے بھی شامل کرتی تھیں تو وہ دگنا لذیز بن جاتا تھا۔ انڈوں پلس گاجروں کا حلوہ….بہت ہی مزے کا ہوتا تھا !‘‘
اف ! نورین بے زار ہوئی۔ شادی کو بیس بائیس برس بیت گئے لیکن مرحومہ ساس نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ہر کھانے میں وہ جتنا چاہے محنت مصالحے اور خلوصِ کی بھر مار کرتی لیکن رسمی سے تعریفی کلمات کے بعد حارث کو اماں کے ہاتھوں سے بنی وہی ڈش یادآجاتی ۔
نندیں ملنے آتیں تو وہ ماں کی تعریف میں رطب اللسان رہتیں۔ اس کی شادی سےدو ایک سال…

مزید پڑھیں

فہرست فروری2024ء

اداریہ
ابتدا تیرے نام سے
صائمہ اسما
4
انوارِ ربانی
شیطان کی صفات
بنت الاسلام
6
قولِ نبیؐ
تقویٰ ،روزے کا مقصود
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
10
خاص مضمون
اسلامی تاریخ کے دو حکمران
میربابرمشتاق
14
نوائے شوق
ناموسِ وطن
بنتِ مجتبیٰ میناؔ
19

غزل
نجمہ یاسمین یوسف
20

رستہ نہ بھٹک جانا
اختر نظامی
20

اے شہر نگاراں کے لوگو
اسما صدیقہ
21

بڑا نازک ہے دل
حریم شفیق
22
حقیقت و افسانہ
دو راہا
قانتہ رابعہ
23

سکّہ
رباب عائشہ
25

سال کا آخری سورج
رمانہ عمر
27

میں زندہ ہوں
عصمت اسامہ
29

جنگل
اسما صدیقہ
32

چھوٹی آپا
فریدہ عظیم
36

عذرا
احسن اختر
39

بہاروں سے پہلے
حمیرا عمر
41
سلسلہ وار کہانی
نٹ کھٹ زندگی
عینی عرفان
43
بتول فائل
قسمت
فرحی نعیم
50
اردو ادب
’’سہارا‘‘ بنت الاسلام کاناول ایک جائزہ
عنیزہ اعزاز
57
روداد
رو داد ایک نشست کی
آصفہ سہیل
60
ہلکا پھلکا
سوفٹ ویئرانجینئر
کوثرخان
62

پالک کے کوفتے
میمونہ عبد الرحمان
64
غذا و صحت
اوسٹیو پوروسِس
ڈاکٹر ناعمہ شیرازی
66
سیر وسیاحت
وہ چند دن
فرحت زبیر سپرا
68
زندگی کا فن
مایوس کیوں ؟
مہوش ریحان
71
حرفِ حکمت
فضائے بدر پیدا کر
حبیب الرحمن
73
محشرِ خیال
اسما اشرف منہاس ، خواجہ مسعود

75
گوشہِ تسنیم
اب میں کیاکروں
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
78

 

مزید پڑھیں

اوسٹیو پوروسِس ایک خاموش بیماری ہڈیوں کابھر بھرا پن ، وجوہات اوربچائو کے طریقے – ڈاکٹر ناعمہ شیرازی

اوسٹیوپوروسس کمزور اور بھر بھری ہڈیوںکی بیماری ہے۔ اس صورتحال میں ہڈیاں اس قدر کمزور ہو سکتی ہیں کہ معمولی جھٹکے جیسے کھانسی یا چھینکنے سے فریکچر تک ہو سکتا ہے ۔ خواتین میں یہ بیماری زیادہ عام ہے ۔ ضروری ہے کہ بچپن ہی سے اچھی خوراک اور ورزش کا اہتمام کیا جائے تاکہ ہڈیوں کے بھر بھرےپن سے بچا جا سکے۔اوسٹیوپوروسس میں ہڈیاںسب سے زیادہ عمومی طورپر متاثر ہوتی ہیں وہ ہیں(۱)کولہے کی ہڈی (Hip bone) (۲) کلائی کی ہڈی (Wrist bone)اور (۳)ریڑھ کی ہڈی (Spine bone)یہ بھر بھرا پن باقی ہڈیوں جیسے کہ بازو وغیرہ کی ہڈیوںکو بھی متاثر کر سکتا ہے ۔
اوسٹیو پوروسس کی علامات
شروع میںیا بالکل ابتدائی دور میںاتنی زیادہ علامات سامنے نہیںآتیں لیکن مرض کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مرض مختلف علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے ۔
(۱)کمر کی ہڈی میںدرد کارہنا backache
(۲) جھک کر چلنے کی تکلیف
(۳) بڑی عمر کے ساتھ ذرا سی تکلیف جیسے کہ کھانسی یا زیادہ چھینکنے سے ہڈی کا فریکچر ہو جانا۔
(۴) پائوںاورہاتھوں کےناخنوں کاکمزور پڑ جانا۔
(۵) مسوڑھوں کا کمزور ہوجانا۔
آئیے دیکھتے ہیںاوسٹیو پوروسس کے خطرے کے عوامل کیا ہیں۔
(۱) صنف(Gender)یہ بیماری عورتوںمیںمردوںکی نسبت زیادہ ہے۔
(۲)یہ بیماری Geneicبھی ہوتی ہے ۔ آریائی نسل کے لوگوں کواوسٹیو پوروسس کا خطرہ…

مزید پڑھیں

اب میں کیا کروں؟ – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

لفظوں کی ترتیب، لہجے کا اتار چڑھائو، ایک سادہ سے جملے کی ساری بُنَت بدل دیتا ہے۔ جیسے مشہورِ زمانہ کتاب کا عنوان:
‘‘Friends not master’’
اس میں’’not‘‘کو پہلے لفظ کے ساتھ یا بعد والے لفظ کے ساتھ کر دیں تو معنی یکسر بدل جاتے ہیں۔
’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ کو بھی کہنے والا اپنی منشاء کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔
اس کو دوغلی پالیسی بھی کہتے ہیں۔ دوغلی کا مطلب ہے برعکس، متضاد یا دو رُخی پالیسی۔ جس کو منافقت بھی کہا جاتا ہے۔ منافقت لفظ نفق سے ہے اور نفق سرنگ کو کہتے ہیں جس کی دونوں اطراف کھلی ہوتی ہیں۔ چوہے کے بل کو بھی نفق کہا جاتا ہے، اس لیے کہ چوہے کے لیے موقع محل دیکھ کر دائیں یا بائیں کا راستہ اختیار کرنا آسان ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ جملے کے درمیانی لفظ کی نشست کا ’’رولا‘‘ کس طرح نمٹایا جائے؟ کہنے والا تو اپنے لیے دونوں طرف کا راستہ کھلا رکھتا ہے۔ نتیجہ اپنے ہی ہاتھ میں رکھتا ہے اور مطیع کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ شاید اسی صورتحال کو کہہ سکتے ہیں’’حکم حاکم مرگ مفاجات‘‘۔
یہ کسی کے ساتھ انتقامی رویہ میں ذہنی اذیت دینا یا بڑے مقصد کے تحت تربیت دینے…

مزید پڑھیں

جنگل – اسماء صدیقہ

یسریٰ اور سویرا دونوں سکول کے زمانے سے گہری دوست تھیں۔ اب کالج میں آنے کے بعد ہونے والے پہلے فنکشن کے لیے ان کی بے چینی دیدنی تھی خاص طور پر سویرا بہت بےتاب تھی ۔
’’اللہ بہت مزہ آئے گا بالکل مہندی کے فنکشن جیسا انجوائے کریں گے ۔ہر لڑکی نئے رنگ کے ڈریس میں لڈی ڈالے گی کھل کے پرفارم کریں گے موجیں ہی موجیں ….‘‘
سویرا چہک کر یسریٰ کو بتا رہی تھی ۔سجنے سنورنے کے سارے ہنر آزمائے جانے تھے۔’’میں تونا اپنے ماموں کی مہندی پہ بنایا ہؤا گولڈن کلر کا کامدار شرارہ سوٹ پہنوں گی اور تم دیکھنا کیسے سٹیپ لیتی ہوں ‘‘ سویرا نے ایکشن دکھاتے ہوئے یسریٰ سے پوچھا ۔
’’چھوڑو امی پتہ نہیں اجازت بھی دیں یا نہیں کالج میں آنے کے بعد سے تو بہت نظر میں رکھتی ہیں‘‘یسری جز بز ہوئی ۔
’’اس میں حرج ہی کیا ہے ۔گھر سے چادر لے کر ا ٓجانا ،یہاں کلاس روم میں گیٹ اپ میں آئیں گے۔ ساری لڑکیاں ہی تو ہیں کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا‘‘ سویرا نےترکیب بتائی۔
’’نہیں بھئی اگلی گلی کی دو تین لڑکیاں کالج میں پڑھتی ہیں نا وہ بتا دیں گی امی کو پتہ چل گیا ناتو قیامت آ…

مزید پڑھیں

محشر خیال

اسما اشرف منہاس۔اسلام آباد

ناول ’اک ستارہ تھی میں‘ ختم ہؤا۔اس ناول کو لکھنے کی کہانی بہت لمبی ہے۔یہ کئی سالوں سے لکھا جارہا تھا کبھی یہ بھی ہؤا کہ فیصلہ کیا کہ اب کچھ نہیں لکھنا یوں یہ ایک لمبے عرصے تک کسی فائل میں بند پڑا رہا۔مگر پَوّن، بی بی اور زرک کے کردار ذہن میں شور مچاتے رہے۔ یہ کردار اتنے طاقت ور اور خوب صورت تھے کہ انہیں لکھتے ہی بنی۔ ویسے بھی کچھ لوگوں کا کردار مجھ پر قرض تھا کہ اسے لکھا جاتا۔ معلوم نہیں ان کرداروں سے انصاف کر پائی یا نہیں،کیوں کہ عموماً ذہن میں بنی تصویروں کو من و عن کاغذ پر اتارنا نا ممکن ہوتا ہے۔میں پچھلے کئی سالوں سے اسما طاہر اور اسما اشرف کے نام سے پاکیزہ،شعاع ،بچوں کا اسلام وغیرہ میں لکھ رہی ہوں۔مگر کم لکھا شاید یہی وجہ ہے کہ زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ناول کی اشاعت بتول کی مدیرہ اور میری ہم نام محترمہ صائمہ اسما کے تعاون سے ممکن ہوئی۔ تحریر کو اشاعتی اصولوں کے مطابق بنانے کے لیے انہیں کافی محنت کرنا پڑی۔محترمہ ذروہ احسن کے وسیلے سے تحریر مدیرہ کے ہاتھوں تک پہنچی۔ دوران اشاعت پروفیسر مسعود خواجہ صاحب مسلسل ہمت افزائی کرتے رہے۔ناول…

مزید پڑھیں

میں زندہ ہوں! – عصمت اسامہ

حمدان شیخ ،اپنے آرام دہ لگژری بیڈروم میں محوِاستراحت تھا ۔ اس کی سائڈ ٹیبل پر جدیدآئی فون پڑا تھا جس پر کسی کی کال آنے کے سبب لائٹ بلنک ہورہی تھی مگر سائلنٹ موڈ کی وجہ سے شیخ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ کمرے کا نیم تاریک ماحول شیخ کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ یکایک شیخ نیند میں کچھ بڑبڑانے لگا اور پھر ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی ،وہ اٹھ کے بیٹھ گیا ،اس کی نبض تیز چل رہی تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ اس نے سائڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور غٹاغٹ پی گیا۔ گھڑی دیکھی تو آدھی رات کا وقت تھا ،وہ دوبارہ لیٹ گیا اور کچھ دیر بعد کمرہ پھر اس کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔
شیخ حمدان کے خاندان کا شمار دبئی کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس کا بزنس مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک تک پھیلا ہؤا تھا۔ہر روز کسی نہ کسی کانفرنس میں شرکت کے بعد اسے نئے آئیڈیاز سوجھتے اور پھر چند دنوں بعد کسی نئے پراجیکٹ کا آغاز کردیا جاتا۔ ایسے ملک میں جہاں بیرون ملک سے بزنس پارٹنرز سرمایہ لگانے کو کھنچے چلے آتے ہوں، سرمایہ رکھنے والے…

مزید پڑھیں

نٹ کھٹ زندگی – عینی عرفان

ڈھلتے سورج کی نرم شعاعیں کھلے صحن میں فرحت افزا احساس بکھیر رہی تھیں۔ سہہ پہر کے سکون میں گھونسلوں میں لوٹتی چڑیوں کی الوداعی چہچہاہٹ کا ہلکا سا ارتعاش پنہا ں تھا۔ اپنی جلترنگ میں تھرکتی خوشی لمحہ بھر کو منڈیر پہ ٹکی اور اندر کا منظر دیکھ کے مبہوت رہ گئی۔سامنے کمرے کے وسط میں بےفکر زندگی کھلکھلارہی تھی۔اس کی مدھر ہنسی نے کانوں میں رس گھولا تو خوشی نے چپکے سے زندگی کی ہزاروں بلائیں لے لیں۔
’’امی! پانی لادیں‘‘ عماد نے کھانستے ہوئےبمشکل آواز لگائی۔ لیپ ٹاپ چلاتے ہوئے مستقل اس کا منہ بھی چل رہا تھا۔سامنے موجود پلیٹ میں چپس ختم ہونے کے قریب تھی کہ اس کواچھو لگ گیا۔
شازمہ ابھی آٹا گوندھنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے آٹے میں لتھڑے ہاتھوں کو بے بسی سے دیکھا۔
’’حماد دیکھ رہے ہو بھائی کو اچھو لگ گیا۔ ذرا اٹھ کے پانی نہیں دے سکتے…. بس ہر وقت موبائل میں مگن رہنا ہے‘‘۔
حماد نے ماں کی آواز پہ یوں چونک کر دیکھا جیسے اس کو پتہ ہی نہ ہو عماد کھانس رہا ہے۔ وہ ایکدم اٹھا اور ایمرجنسی ایمرجنسی کی آوازیں لگاتا ہوا کچن کی طرف بھاگا۔ کولر سے پانی بھرا اور جس رفتار سے آیا تھا اسی رفتار…

مزید پڑھیں

غزل

لگے ہیں زخم جو دل پردکھائیں گے بھلا کس کو
نہیں ہے کوئی بھی اپنا
کہ جس کو دکھ بتا سکتے
بتاتے سنگ باری کرنے والوں کی یہ دنیا ہے
بڑا نازک ہے دل
جیسے بنا ہے کانچ کا شاید
ذرا سی ٹھیس لگتی ہے
تو چکنا چور ہوتا ہے
لہو آنکھوں سے بہتا ہے
برے ہیں ہم غلط ہیں ہم
زمانہ ہم سے کہتا ہے
مگر اے کاش آتا ہوہمیں بھی گُر ستانے کا
انھیں بھی آزمانے کا
دکھاتے ہم بھی آئینہ
مگر خاموش رہنا ہے
ہمیں کچھ بھی نہ کہنا ہے
ملے ہیں زخم جو ان سے
ہمیں چپ چاپ سہنےہیں
دکھوں کو جب زباں مل جائے تو
اچھا نہیں ہوتا
بڑی مشکل جو بنتے ہیں گھروندے
ٹوٹ جاتے ہیں
تو زخموں کو چھپا لیناہمیشہ
سنگ باری جب کرے دنیا
تو سہہ جانا
سنبھل کرمسکرا دینا
سمجھ لینا
دکھوں کو سننے والے
چننے والے راہ کے کانٹے
نہیں باقی رہے اب!
رستہ نہ بھٹک جانا

رستہ نہ بھٹک جانا
آنکھوں کو کھلا رکھنا
تنہا نہ چلو ہمدم
ہمراہی سدا رکھنا
شیطان صفَت ہردم
تاک میں ہوتے ہیں
دھوکے میں نہ آجانا
تم یادِ خدا رکھنا
بچ بچ کےچلو راہی
غفلت میں نہ پڑ جانا
رستے پہ نظر رکھنا
خوابوں میں کبھی آؤ
یہ دل کی تمنا ہے
کیا خوب تمنا ہے
ملنے کی دعا رکھنا
بس یادِ خدا رکھنا
ایماں کا تقاضا ہے
آنکھوں سے نہاں بےشک
پر دل میں بسا رکھنا
(اختر نظامی)

حیدر آبادی چٹکلے

ایک عزیزہ جب آتیں امی کا مذاق اڑاتی تھیں کہ جب آپ لوگوں…

مزید پڑھیں

ناموسِ وطن – بنتِ مجتبیٰ میناؔ

ناموسِ وطن
(1960 میں کہی ہوئی نظم)

اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل
جو گلشن خون سے سنیچا ہے
ہاتھوں سے خزاں کے لُٹ جائے
خود غرض بڑھیں اخلاص گھٹے
بھائی سے بھائی لڑ جائے
کیا تجھ کو گوارا ہے سب کچھ ؟
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل
اُٹھ دیکھ کہ تیرے بچوں میں
کچھ پنجابی بنگالی ہیں
کچھ سندھی کچھ سرحدی ہیں
کچھ پیش بھگت کچھ گاندھی ہیں
آذر تو ہیں ابراہیم نہیں
کیا تجھ کو گوارا ہے سب کچھ ؟
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموس وطن کروٹ تو بدل
یہ تیری آنکھ کے تارے ہیں
یہ تیری گود کے پالے ہیں
تو جن کو کہتی رہتی تھی
نادان ہیں بھولے بھالے ہیں
اُٹھ دیکھ کہ تیرے لالوں نے
ان تیری آنکھ کے تاروں نے
ہاں تیری گود کے پالوں نے
ان تیرے بھولے بھالوں نے
کیا ظلم و ستم ڈھا رکھے ہیں
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل
ممکن ہے کہ ان لوگوں میں ابھی
اللہ کا بندہ ہو کوئی!
ان چلتی پھرتی لاشوں میں
شاید ہے کہ زندہ ہو کوئی
اُمید کا دامن تھام کے اُٹھ
اسلام کا پرچم تھام کے اُٹھ
ان ٹیڑھی ترچھی راہوں سے
واپس تو بلا ، آواز تو دے
شاید کہ تری آوازوں سے
یہ لوگ پلٹ کر آجائیں
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل

 

 

مزید پڑھیں

قسمت – فرحی نعیم

گھرمہمانوں سے بھرا پڑاتھا۔ ایک افراتفری کا سماں تھا۔ ہر کوئی مصروف، کوئی تیاری میں توکوئی باتوں میں، ایک شور تھا جو سارے گھر میں بپاتھا۔ لڑکیاں اپنی ادھوری تیاری کو مکمل کرنے میں سرگرداں تو مائیں اپنے بچوں پر برس رہی تھیں جویہاں سے وہاں بھاگے دوڑے پھر رہی تھے۔مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام اگرچہ لان میں تھا لیکن چونکہ ابھی سسرال والے نہیں آئے تھے لہٰذا اس طرف کے سارے مہمان گھر کے کمروں میں ہی براجمان تھے۔
’’ارے یہ امبر نظرنہیں آرہی،کیا تیار نہیں ہوئی؟ عارفہ اسے دیکھو کہاں ہے؟‘‘سب سے پہلے امی کو ہی اس کا خیال آیا۔ انہوںنے پاس بیٹھی بھتیجی سے پوچھا۔
’’پھوپھو کافی دیرپہلے وہ تیارہونے گئی تھی۔ میں دیکھتی ہوں۔‘‘ عارفہ نے جواب دیا اور ساتھ ہی امبر کو دیکھنے اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ آئینہ کے سامنے بیٹھی نہ جانے اپنے چہرے پر کیا تلاش کررہی تھی ۔ آئی تو وہ سب سے یہی کہہ کرتھی کہ ’’میں تیار ہونے جارہی ہوں۔‘‘ لیکن کتنی ہی دیر ہوگئی تھی اسے یہاں بیٹھے بیٹھے، نہاکر کپڑے تبدیل کرکے اب وہ آئینہ کے سامنے ہلکا پھلکا میک اپ کرنے کے لیے بیٹھی تھی۔ سوٹ کے ساتھ کی میچنگ جیولری بھی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی تھی۔ لیکن نہ جانے…

مزید پڑھیں

تقویٰ ،روزے کا مقصود – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر اپنی نعمت کا اتمام اور اس کے کمال کا ایک اظہار اسے روزے کی فرضیت کا عطا فرمانا ہے۔ایک مہینے کے روزے اس کے لیے تقرب الی اللہ اور رضائے الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی‘‘۔ (البقرۃ، ۱۸۳)
سورۃ البقرۃ کو سورۃ الاحکام والمسائل بھی کہا جاتا ہے، اس میں معاشرت کے احکام بھی ہیں اور معاملات کے بھی، عبادت اور معیشت کے بھی۔ یہاں عبادات میں سے روزے کی فرضیت اور اس کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فرائض اور تکلیفات پر عمل کے لیے انسان کے نفس کو بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، ان احکامات پر عمل کے لیے اس میں سپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ اس کی روح مطمئن ہو کر ان احکامات کی جانب مائل ہو جائے، اسی خاطر یا ایھا الذین آمنوا کہ کر بڑی محبت سے پکارا گیا ہے۔’’تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں‘‘۔اور یہ تمام گزشتہ انبیا علیہم السلام کی…

مزید پڑھیں

بنت الاسلام کے ناول ’’سہارا ‘‘ کا فنی و فکری جائزہ – عنیزہ اعزاز

ناول انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مسلسل قصہ۔فن کی رو سے ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص نقطۂ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی اورواقعی عکاسی کی گئی ہو نا۔ول زندگی کی تصویر بھی ہے اور تفسیربھی اورسب سے بڑھ کر زندگی کی تنقید ہے ۔ ناول نگار گویا زندگی کے چہرے سے نقاب اٹھاتا ہے ۔ ناول میں حکیمانہ ادبی اظہار بھی ہے اور تخیل کی بلند پروازی بھی۔ حقائق بھی ہیں اور فلسفہ بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار و روایت کی جھلک بھی ہے اور خیرو شر کی آویزش بھی ۔ مگر یہ سب کچھ اتنے فنی و فکری انداز میں رچائو کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا ذاتی وجود بظاہر معدوم ہو جاتا ہے اورصرف ناول باقی رہ جاتا ہے ۔ گالزوردی ناول نگار کو ایک ایسا مصلح قرار دیتا ہے جو بدی کے کوچے میں چراغِ راہ جلا کر خرابیوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔
اس تناظر میں جب ہم بنت الاسلام کے ناول ’’ سہارا ‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں بہترین ناول کے تمام اجزا نظر آتے ہیں۔
کسی بھی ناول میںپلاٹ ، کردار مکالمے ، منظر نگاری نصب العین، کی اہمیت…

مزید پڑھیں

سال کا آخری سورج – رمانہ عمر -ریاض

میں سال کی آخری شام افق پہ پھیلے نارنجی اور گلابی ڈورے بادلوں کی اوٹ سے نکلتے دیکھنے میں محو تھی کہ مجھے اچانک یوں محسوس ہؤا کہ زرد گولا آج بہت ہی اداس ہے بلکہ یوں لگا کہ موٹے موٹے آنسو گرا رہا ہے ۔ خیر ویسے تو یہ محض دنیا والوں کے بنائے گھڑیال اور جنتر یاں ہیں جنہوں نے اسے ماہ و سال میں تقسیم کر رکھا ہے ورنہ اس کا اصل کا م تو ہر صبح نئ امیدیں اپنی جھولی میں لیے طلوع ہونا اور ہر شام اداسیوں کے سائے بکھیرتے اندھیرے کی چادر پھیلاتے ہوئے غروب ہو جانا ہے ۔ لیکن پھر بھی کچھ تو ہے کہ 31دسمبر کچھ زیادہ ہی مضمحل اور مایوس ہے ۔ اداسی مجھے اپنے رگ وپےمیں اترتی ہوئی باقائدہ محسوس ہونے لگی اور پھر شاید میرے کان بھی بجنے لگے یا شاید وہ اپنی سولر لہروں کے ذریعے مجھ سے محوکلام ہو گیا ۔ وہ مجھے ریڈیائی لہریں بھیج رہا تھا اور میرا دل ،دماغ، بلکہ میرا رواں رواں اس واضح پیغام کو وصول کر رہا تھا ۔ ہم دونوں کنکٹڈ ہو چکے تھے ۔
وہ کہہ رہا تھا ۔
بوڑھا ہو گیا ہوں تھک چکا ہوں ۔ لیکن اپنی ذمہ داری…

مزید پڑھیں

شیطان کی صفات – بنت الاسلام

’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے کہا۔ ’’کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے۔‘‘ پھر وہ بولا۔ ’’دیکھ تو سہی ٗ کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں۔ بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’اچھا تو جا ٗ ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں ٗ تجھ سمیت ان سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزاء ہے۔ تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے۔ ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا ٗ مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس— اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں— یقینا میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا اور توکل کے لیے تیرا رب کافی ہے۔‘‘ (سورئہ بنی اسرائیل: ۶۱ تا ۶۵)
ہمارے نفس میں برائیاں پیدا ہو جانے کا اصل…

مزید پڑھیں

سکہ – رباب عائشہ

جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو آسمان سے برف روئی کے گالوں کی طرح زمین پر اتر رہی تھی۔ میں اپنے نواسے کے سکول کے سامنے کھڑی اس کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ لانبے قد، سبک متوازن جسم اور بے حد گوری رنگت والی حسین لڑکی چھتری اٹھائے میرے قریب ہی کھڑی تھی ۔ اس نے لانگ شوز پہن رکھے تھے اور پینٹ کے اوپر اوور کوٹ زیب تن کر کے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کا پورا انتظام کر رکھا تھا ۔ شانوں تک کٹے اس کے سنہری بال یوں معلوم ہو رہے تھے جیسے سفید برفیلے ماحول میں بجلیوں کے شرارے جل بجھ رہے ہوں۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیا دنیا میں اتنا حسن بھی ہوتا ہے ؟ واقعی کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ بڑی فرصت سے بناتا ہے ۔ اس ہی لمحہ میرا نواسا سکول کے گیٹ سے باہر آگیا اور ہم گھر کی جانب چل پڑے۔
میں اپنی بیٹی سے ملنے انگلستان کے اس چھوٹے سے قصبے ہنینگٹن آئی تھی ۔ جب میں نے یہاں قدم رکھا تو مجھے احساس ہؤا کہ یہ علاقہ برمنگھم سے بہت مختلف ہے ۔پچھلے سال جب میں برمنگھم آئی تھی تو میری بیٹی…

مزید پڑھیں

سوفٹ وئیر انجینئر – کوثر خان

’’ارے جنید پتہ نہیں کہاں چلاگیا مجھے چھوڑ کے؟ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں موٹر سائیکل پر بیٹھی بھی نہیں اور وہ اسٹارٹ کرکے یہ جا وہ جا۔عجیب لڑکا ہے یہ‘‘۔
نادیہ بیگم شاپنگ مال جانے کے لیے اپنے بیٹے جنید کے ساتھ نکلی تھیں،گھر سے تھوڑے فاصلے پر وہ کچھ لینے کے لیے اتریں۔واپس موٹر سائیکل کی طرف مڑیں تو جنید موٹر سائیکل سمیت غائب تھا۔وہ سڑک کے کنارے پریشان کھڑی سوچ رہی تھیں اب میں کہاں جاؤں؟ گھر کی چابی ان کے پاس تھی نہیں۔کوئی موبائل بھی نہیں تھا۔اب کروں تو کیا کروں؟
اسی سوچ بچار میں تھیں کہ اچانک خیال آیا کہ اپنی سہیلی آصفہ کے گھر چلی جاتی ہوں۔اس کے فون سے بیٹے کو فون بھی کرلوں گی۔یہ سوچ کر وہ قریب میں واقع آصفہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔وہاں پہنچ کر انہوں جنید کو فون کرکے پوچھا’’بیٹا ! تم کہاں ہو؟‘‘
جنید بھی پریشان ہوکر بولا’’امی! میں تو شاپنگ مال کے سامنے کھڑا ہوں۔میں نے موٹر سائیکل سے اتر کر دیکھا تو آپ تھیں ہی نہیں۔میں تو سمجھا تھا کہ آپ موٹرسائیکل پر بیٹھ چکی ہیں اس لیے میں نے موٹر سائیکل چلادی۔میں تو راستے میں آپ سے باتیں بھی کررہا تھا اور سوچ رہا…

مزید پڑھیں

اسلامی تاریخ کے دو حکمران – میر بابر مشتاق

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ
اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ جن کا دور خلافت اس قدر تابناک اور روشن ہے کہ لوگ آپ ؓ کو پانچویں خلیفہ راشد کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ آپ کا دورِخلافت گرچہ بہت مختصر تھا ، تاہم اس نے حضرت عمر بن خطابؒ کے دور کی یاد تازہ کردی ۔ چنانچہ آپ کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے ۔
آپ کانام عمر اور کنیت ابو حفص ہے ۔ آپ کی والدہ محترمہ ام عاصم خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کی پوتی ہیں ۔ آپ نے ہجرت کی اکسٹھویں سال مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی ۔ یہ بنو امیہ کی خلافت کا دور تھا ۔ اسلامی مملکت دور دور تک پھل چکی تھی ۔ افریقہ اور مغرب کے تمام شہر ، سندھ، کابل اور فرغانہ روم ، قسطنطنیہ، قبرص اس مملکت میں شامل تھے ۔ گویا اندلس کے آخری گوشوں سے سندھ تک اور بلاد روم سے چین کی دیواروں تک اسلامی مملکت کا سکہ رواں تھا۔
آپؒ نے بچپن ہی میں قرآن حفظ کرلیا ۔ عربی زبان اور شعر گوئی کی تعلیم حاصل کی ۔ علم حدیث مختلف شیوخ سے سیکھا ، تاہم زیادہ تر حضرت عبد اللہ عتبہؒ سے استفادہ…

مزید پڑھیں

وہ چند دن – فرحت زبیر سپرا

آج رات کو طیبہ لاہور آئی ہے ۔ اگر ہو سکے تو واپسی پر میں اس کے ساتھ ایبٹ آباد چلی جائوں ۔ میں نے بھائی سے پوچھا۔
کتنے دن کے لیے آئی ہے ؟
ہفتے کے لیے ۔
بھائی نے چائے کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے پوچھا، اور تم کتنے دنوں کے لیے جانا چاہتی ہو ؟
میں نے کہا کم سے کم ایک مہینہ تو رکوں گی ۔
اتنا کیوں ؟ بھائی نے کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔
وہ اس لیے کہ ایبٹ آباد ایک ہفتہ رہوں گی ۔ پھر ایک ہفتہ حویلیاں اور پھر پندرہ دن پکسیری ۔
اتنی جگہوں پر رُک کر کیا کرنا ہے ؟ بھائی نے آخری گھونٹ پیتے ہوئے کہا۔
بس اتنی دیر بعد جا رہی ہو ں۔ وہاں گھوموں پھروں گی ۔ ادھر گرمی میں کیا کروں گی ۔
اچھا ! عمیر بھائی نے گہری سانس لی اور کہا ۔ چلو ٹھیک ہے ۔ جیسے تمہاری مرضی ۔ بھائی کے ساتھ ساتھ والد صاحب نے بھی حامی بھر لی۔
بھائی کی شادی کے بعد یہ میرا پہلا چکر تھا ۔ ایبٹ آباد کا ۔ہفتہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ مشکل سے ہفتہ ختم ہؤا۔ میں ابھی طیبہ کو فون کرنے ہی لگی تھی کہ طیبہ…

مزید پڑھیں