کرامت بخاری

غزل – بتول جون ۲۰۲۲

غزل ہنس کے طوفاں کو ٹالتے رہیے رنگ ہر سو اُچھالتے رہیے اپنے دل کے حسین جذبوں کو لفظ و معنی میں ڈھالتے رہیے زیست کے بیکراں سمندر سے سچ کے موتی نکالتے رہیے پھیل جائے نہ تیرگی ہر سو زخمِ دل کو اُجالتے رہیے درد و غم کے اُمڈتے طوفان کو دل کے دریا میں ڈالتے رہیے علم و دانش چھپی ہوئی شے ہے لمحہ لمحہ کھنگالتے رہیے بارِ غم تو متاعِ ہستی ہے یہ امانت سنبھالتے رہیے با کرامتؔ ہے یہ سخن گوئی اس روایت کو پالتے رہیے کرامتؔ بخاری       غزل کہاں دل کو اتنا تھا حوصلہ مری بات بیچ میں رہ گئی ترے سامنے رکھوں مدعا مری بات بیچ میں رہ گئی میں جو دیکھتا، نہیں دیکھتا، جو نہ دیکھتا، مجھے دیکھتا یونہی وقت سارا گزر گیا مری بات بیچ میں رہ گئی اٹھا اپنی بات بتا کے وہ، گیا اپنا درد سنا کے

مزید پڑھیں