اللہ ربّ العزت نے امت محمدیہ کی جو خصوصیت اس آیت میں بیان کی کہ’’ اور اسی طریقے سے ایک بہت بڑی نعمت ہم نے تمہیں یہ دی کہ ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنا دیا‘‘۔لہٰذا ہمیں ہر عمل میں اعتدال پیداکرنے کی ضرورت ہے، عقیدے میں بھی، عبادت میں بھی ، حقوق کی ادائیگی میں بھی، خرچ میں بھی، سیاست میں بھی، نیکیوں میں بھی، آپس کے تعلقات میں بھی اور ہمارے مزاج اور اہم فیصلوں میں بھی اعتدال ہونا چاہیے تاکہ ہم امت مسلمہ کا فردہونےکے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔
’’اور (مسلمانو !) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو ، اور رسول تم پر گواہ بنے‘‘۔ (سورۃ البقرہ :143)
اللہ ربّ العزت اس آیتِ کریمہ میں امت محمدیہ کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے ایک خاص اصطلاح ذکر فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہیں ’’امتِ وسط‘‘ بنایا ہے۔ عربی میں’’وسط‘‘ درمیانہ پن، اعتدال، میانہ روی اور بیچ کے راستے کو کہتے ہیں۔
اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جو چیز درمیان میں ہوتی ہے وہ زیادہ اچھی لگتی ہے اور زیادہ آویزاں ہوتی ہے اور اسی طرح کسی مجلس میں اسٹیج جب بنتا ہے تو بالکل بیچ…
وَ اعْلَمُوْا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِؕ-لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ-اُولٰئِک هُمُ الرّٰشِدُوْنَ(۷)فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ نِعْمَةً-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْم
ترجمہ:خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے ۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ ۔ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنا دیا ، اور کفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کر دیا ۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔(الحجرات:۷)
مذکورہ آیات مبارکہ میں آپ ؐ سے اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کو اس بات کی تلقین کی جارہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم اگرچہ بہت سے معاملات میں مشورہ دیتے ہو جوکہ مناسب بات ہے اور بعض اوقات نبی علیہ السلام خود بھی آپ سے مشاورت کرتے رہتے ہیں، لیکن یہاں یہ فرمادیا کہ یہ سلسلہ مشاورت تک محدود رہے اس سے آگے اس بات کی اجازت نہیں کہ آپ علیہ السلام سے…
فضائل سورۃ الفاتحہ
۱۔ اس سورت کے بہت سے نام ہیں فاتحۃُ الکتاب، امُّ الکتاب، سورۃ شفاء، سبع مثانی۔
۲۔ یہ سورت قرآن کریم کے مقدمے کی حیثیت رکھتی ہے۔
۳۔ اس سورت میں وہ تمام مضامین جمع کیے گئے ہیں جو مضامین پورے قرآن میں ہیں مثلاً اللہ کی تعریف، صفات، عبادت، استعانت، ہدایت اور ہدایت یافتہ وگمراہ لوگوں کا انجام وغیرہ۔
۴۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سورۃ فاتحہ کے مثل سورت کسی بھی آسمانی کتاب میں موجود نہیں بلکہ خود قرآن مجید میں بھی اس کے مثل سورت کوئی نہیں۔
۵۔ یہ سورت امت محمدیہ ؐکے لیے خاص تحفہ ہے۔
اس سورت کے مضامین دو حصوں پر مشتمل ہیں
۱۔ خدا شناسی ۲۔ خود شناسی
الحمدللہ سے مالک یوم الدین تک خدا شناسی کا تذکرہ ہے اور ایاک نعبد سے ولاالضالین تک خود شناسی کا تذکرہ ہے۔
ان دو مضامین کا مقصدیہ ہے کہ بندہ اپنے خدا کو بھی جان لے، اس کے مقام سے واقف ہوجائے، نیز اپنے آپ کو اور اپنی حیثیت اور پوزیشن کو بھی جان لے۔
الحمدللہ رب العالمین
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
۱۔ اس آیت میں دو باتیں ہیں : ذات باری تعالیٰ یعنی ”اللہ“ صفت ِ باری تعالیٰ یعنی ”رب العالمین“۔
۲۔ الحمد للہ، یعنی…