قارئینِ کرام سلام مسنون
ربیع الاول کے مہینے کا آغاز ہے۔ہادیِ برحق، ختمِ رسل،محسنِ انسانیت، رحمت للعالمین، محبوبِ سبحانی ،محمد مصطفیٰ ﷺ کی نسبت سے ذکرودرود اور نعت کی محفلیں منعقد کی جائیں گی۔آج کے دور میں جبکہ دین فرقوں میں قید ہوگیا ہے ، ان فرقوں کی تعلیمات کو ہی اصل دین سمجھ لیا گیا ہے، اور اسی بنا پر ایک دوسرے پر کفرونفاق کے فتوے لگائے جاتے ہیں، باہم فسادکی آگ بھڑکائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں جانیں تک چلی جاتی ہیں، ایسے میں ’’دیں ہمہ اوست‘‘ کی یاددہانی اور تفہیم سب سے اہم بات ہے۔ نبیِ رحمت کے اسوہ حسنہ اور آپؐ کی صاف ستھری پاکیزہ،افراط وتفریط سے پاک تعلیمات کو ہر معاملے میں رہنما بنانا،دین کے نام پر نفس، فرقہ،گروہ،روایات اور آباؤاجداد کے طرزِ عمل سے ہٹ کر ،آپؐ جو کتاب ہمارے درمیان چھوڑ کر گئے اس کو مشعلِ راہ بنانا، سیرتِ پاک سے رہنمائی لینا ہمیں اصل دین کی طرف لوٹا دے گا۔علامہ کے الفاظ میں جس راستے سے ہم محمدؐمصطفیٰ تک نہیں پہنچتے،وہ سراسر بولہبی ہے،یعنی گمراہی ،دین سے دشمنی اور ہلاکت ہے، چاہے وہ کتنے ہی خوش نما ناموں سے ہو۔
بلوچستان میں بدامنی کی فضا بڑھ گئی ہے۔ تین مختلف مقامات پر باغیوں…
”سینان! سینان!“
بابا مجھے آوازیں دے رہے تھے۔
(ماں کے بعد بابا نے مجھے کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی)
” بابا! میں اور مروان یہاں ہیں۔ اوپر….
ذوشی( بکری) کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا۔ مرہم لگا دیا ہے۔ “
”اچھا اچھا!“
”مروان! میرے ساتھ ذرا عار عرہ تک چلو گے؟ “
”جی بابا!“
(ہمیشہ کا فرمانبردار مروان تیار تھا۔)
٭
مروان بابا کی بہن کا بیٹا تھا ۔ ”روحا بی“ ”شہید نضال“ کی بیوہ تھیں ۔ شہید نضال کی شہادت کے بعد سے وہ بابا کے ساتھ تھیں مگر کچھ عرصہ بعد ہی وہ بھی مروان کو تنہا کرکے اپنے خالق کے پاس چلی گئیں۔ میں اور مروان ڈائیٹنیا لیون ٹائن کی فضاؤں میں پلے بڑھے تھے ۔
ڈائیٹنیا لیونٹائن!!!!
یہ باغ کے اندر بنا چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ، ایسا ریسٹورنٹ جہاں کچھ دیر کے لیے سکون اور تازگی میسر ہو اور لوگ فطرت کی سیر کریں۔ یہ چھوٹا سا باغ اور ریسٹورنٹ بابا نے اپنی خاندانی زمین پر بنایا تھا ۔ ہر کونے میں میز اور کرسیاں ، کچن میں لٹکتے پین اور برتن، زاتار اور پودینہ تک آسان رسائی جسے اپنے کھانے پر چھڑکنے کے لیے خود چنا جا سکتا ہے۔ شیڈ کے اوپر جانے کے لیے دھات…
ایک قریبی عزیزہ نے فرمائش کی ہے کہ’’ بتول ‘‘ کے لیے کچھ لکھوں ! سوچا تویادوں کی ایک لہر اٹھی جوسیلاب میں تبدیل ہو گئی ۔بہت کچھ یاد آگیا۔کیوں نہ قارئین کے ساتھ یادیں ہی بانٹی جائیں ۔ شعر تو کثرت استعمال سے پامال ہوچکا ہے مگرصورت حال پرمنطبق خوب ہورہا ہے ۔
تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائی سینہ را
گاہی گاہی باز خواں این قصہ پارینہ را
یعنی سینے کے داغوں کو تازہ رکھنا ہے توپرانی حکایتیںدہراتےرہا کرو!
’’بتول‘‘سےتعلق برسوں پر نہیں ،دہائیوںپرپھیلا ہؤا ہے ۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں اورمیری بڑی بہن سکول میں پڑھتے تھے ۔ والد گرامی مرحوم چونکہ شاعر اورنثر نگار تھے اورچونکہ فارسی اورعربی ادب سے ان کا تعلق آبائی ، بلکہ ،خاندانی تھا اس لیے ملک کے تمام معروف رسالے اور جریدے ہمارے گھر آتے تھے ۔ماہِ نو اورچٹان کی تو مجلد فائلیں اب بھی شاید موجود ہوں ! ماہر القادری کا ’’ فاران‘‘ بھی آتا تھا۔ بھارت سے ماہنامہ’’ تجلی‘‘ باقاعدگی سے آتا تھا ۔
والد گرامی مرحوم دیو بندی مدارس سے فارغ التحصیل تھے مگروسیع المشرب تھے ۔ کمال کی برداشت رکھتے تھے ۔ہمیشہ اپنی اولاد اور اپنے شاگردوں کو بھی برداشت اوروسیع المشربی کا درس دیا ۔ مولانا مودودی سے ان…
”اماں میں اسکول میں جاب کرلوں؟“ نیلی نے ڈرتے ڈرتے ماں کی طرف دیکھا۔
”اماں پلیز!! “ اس نے لجاجت سے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھا۔
”نہیں بیٹا“۔سلائی مشین پر جھکی سلائی کرتی ہوئی رضیہ خاتون نے نفی میں سرہلایا۔”کیا ضرورت ہے گزارہ ہوتو رہا ہے“۔
”کیا خاک گزارا ہو رہا ہے“۔نیلی نے برا سا منہ بنایا۔”میں چاہتی ہوں کہ آپ کا ہاتھ بٹاؤں،آپ کی مدد کروں۔اب جبکہ میں بی ایس سی کرچکی ہوں اور گھر کے قریب اسکول میں جاب بھی مل رہی ہے تو حرج بھی کیا ہے“۔
”حرج“رضیہ خاتون نے برا سا منہ بنایا۔”حرج ہی حرج ہے۔میں اب تمھاری شادی کرنا چاہتی ہوں“۔
”شادی؟؟ میں شادی کرلوں؟“ وہ تو جیسے اچھل ہی پڑی۔”اور ابا کے سارے خواب ادھورے رہ جائیں؟ خالد کو اور مومی کو ڈاکٹر بنانا….“
”بس….کوئی بھی کام انشا ء اللہ ادھورا نہیں رہے گا۔ہمیں تمھاری کمائی کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ان شاءاللہ اللہ بہترین انتظام کرنے والا ہے۔خالد پڑھائی نہیں چھوڑے گا اور باقی سب بھی پڑھتے رہیں گے۔لیکن تمھاری شادی بھی ضروری ہے یہ کام وقت پر ہونا ہے سمجھیں تم؟“ انھوں نے پیار سے سمجھایا۔”اب جاؤ ڈرائنگ روم کی صفائی کرو چند لوگ آرہے ہیں دوپہر تک اور ہاں اپنا حلیہ بھی درست کرلینا“۔
نیلی کا اصل نام…
رافعہ کواچھی طرح یاد تھا کہ نجیبہ اسےپہلی مرتبہ مصر کے سفارت خانے میں ملی تھی۔
جشن آزادی کی تقریبات پورے جوش و خروش سے جاری تھیں۔ اگست کا دوسرا عشرہ شروع ہونے کی دیر ہوتی کہ خوب دھوم دھام سے ہر سطح پر پروگرام شروع ہوجاتے۔
یہ بھی ایسا ہی پروگرام تھا ۔رافعہ تیسری رو میں تھی اور اس کے ساتھ والی کرسی پر وہ بیٹھی تھی۔ سر پر نیلا سکارف، کالی سیاہ بڑی بڑی آنکھیں اور آنکھوں میں ان کہے دکھوں کی کوئی ایسی داستان تھی کہ جو دیکھتا ان کالی آنکھوں کے سحر میں کھو سکتا تھا ،اور ان خوبصورت آنکھوں کے نیچے بہت چھوٹی سی ناک اور گلابی رنگت والی وہ لڑکی ۔
مجموعی طور پر وہ بہت خوبصورت نہ بھی سہی لیکن اس کی آنکھیں ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی تھیں۔وہ بلا کی پرکشش تھی۔کرسی پر بیٹھی ہوئی دیکھنے میں زیادہ سے زیادہ سولہ سترہ سال کی لگ رہی تھی ۔رافعہ کی نظریں بار بار بھٹک کر اس کی طرف اٹھ رہی تھیں۔جونہی مغنیہ نے’’وطن کی مٹی گواہ رہنا ‘‘ گانا شروع کیا اس کے چہرے پر یک لخت سنجیدگی چھا گئی۔رافعہ کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے حیرت بھی ہوئی کہ اتنی چھوٹی…
پچھلے دنوں ایک ریسرچ سے ثابت ہؤا ہےکہ پاکستان میں وقت کے ساتھ ہرچار میں سے ایک شخص چالیس سال کی عمرکے بعد دل کے کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ تحقیق باعث فکرہے کہ پچیس سے چالیس سال کی عمر کے دوران ہارٹ اٹیک کی شرح میں بہت اضافہ ہؤا ہے۔
ہارٹ اٹیک کودل کا دورہ بھی کہا جاتا ہے۔اس کا شمارسب سے خطر ناک بیماریوں میں ہوتا ہے۔بہت سے لوگوں کواچانک ہارٹ اٹیک کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔اگر مریض کو فوری طبی امداد نہ دی جائے تو مریض کے لیے موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
یہ چونکہ اچانک لاحق ہونے والی بیماری ہے اس لیے کبھی کبھار اس سے فوری پہلے کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ۔ زیادہ تر افراد میں اس کی علامات شدید نہیںہوتیں ۔ لوگ ان علامات کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں ۔
یہ ایک ایسا طبی عمل ہے جس سے دل میں خون کا بہائو اچانک رک جاتا ہے اورارد گرد کے ٹشوز کو فوری نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے اس کی علامات کوسمجھنا بے حد ضروری ہے تاکہ علامتیں ظاہر ہونے پر فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے ۔
ہارٹ اٹیک کی علامات
(۱) دم گھٹنے اور سینے میں درد…
بندوں کے ساتھ خیر خواہی سب سے بڑی نیکی ہے اور یہ نیکی ایک دوسرے پہ فرض ہے ۔ ایمان لانے کے بعد حقوق العباد کی ادائی ہی آخرت میں انسان کی نجات کا باعث ہو گی ۔
یہ ایک عجیب امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے ہی دراصل اللہ تعالیٰ نے عبادات فرض کی ہیں کیونکہ روحانی طور پہ مضبوط انسان ہی حقوق العباد کا مشکل پرچہ حل کر سکتا ہے ۔
دنیا میں انبیاء انسانوں کی خیر خواہی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ، اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اپنی بارگاہ میں برگزیدہ فرمایا پھر یہ مشن سونپا اور اکثر انبیاء کرام علیھم السلام کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی نگہبانی کے ذریعے ایسی جانفشانی صبر و تحمل کی صفت پیدا کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت سے اس ذمہ داری کو کما حقہ نبھانے میں کامیاب قرار پائے اگرچہ انسانوں کی قلیل تعداد ہی انبیاء کرام علیھم السلام کی ہم راہی کا شرف حاصل کر سکی۔
سیدنا نوح علیہ السلام کی زندگی کے نو سو پچاس سال انسانوں کو خیر وبرکت کے راستے کی طرف بلانے پہ لگے ۔ مگر اتنی قلیل تعداد نے ان کی دعوت پہ لبیک کہا کہ جو ایک…
سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیو نٹولوجی( ایس۔ آئی۔ سی۔ ایچ۔ این) کراچی کے تحت عالمی ادارہ یونی سیف اور پاکستان پیڈی ایٹرک ایسوسی ایشن کے تعاون سے اوائل جون میں پاکستان میں پہلے ’ہیومن ملک بینک‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا باقاعدہ افتتاح سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کیا۔ اس بینک کو شریعت سے مطابقت رکھنے والا ’شریعہ کمپلائنٹ‘ ’انسانی دودھ بینک‘ قرار دیا گیا تھا۔
اخبارات کےمطابق اس بینک کے قیام میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک فتویٰ سے راہنمائی لی گئی تھی جس کے تحت ایسے بینک کے قیام کے لیے کچھ شرائط عائد کی گئی تھیں۔ اولاً دودھ مہیا کرنے والی خواتین کے مکمل ڈیٹا کا حصول اور اس ڈیٹا کو بینک سے دودھ حاصل کرنے والے بچوں کی ماں سے شیئر کرنا تھا، تاکہ رضاعت کے رشتے کا ریکارڈ قائم رکھا جا سکے۔ ثانیاً یہ لین دین بلا اجرت ہونا چاہیے اور اس میں خرید و فروخت کا کوئی تصور نہ ہو۔ ثالثاً مسلمان بچوں کو صرف مسلمان ماؤں کا دودھ فراہم کیا جانا چاہیے۔ رابعاً دودھ طبی تقاضوں کے تحت بیکٹیریا اور وائرس سے پاک ہو۔ خامساً یہ دودھ صرف 30 ہفتوں سے کم وقت میں پیدا ہونے…
جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اس میں انسانوں کے دو گروہ بستے ہیں،ایک سچے اور دوسرے جھوٹے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں سچوں کی سچائی اور جھوٹوں کی کذب بیانی کے درمیان کشمکش رہی ہے، اور تاریخِ انسانی نے ثابت کیا کہ جھوٹ خواہ کتنا بڑا اور کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ، وہ سچائی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا، اور آخر کار ہر جھوٹے کو منہ کی کھانی پڑتی ہے، حتی ٰکہ اللہ کے مقابلے میں اپنے آپ کو ’’انا ربّکم الاعلی‘‘ کہنے والا فرعون اپنی ساری طاقت کے ساتھ غرق ہوتا ہے، اس کے لشکروں کی حمایت کرنے والے قارون اور ہامان بھی تباہی کا شکار ہوتے ہیں اور ’’انا احیی وامیت‘‘ (زندگی اور موت میں دیتا ہوں) کہنے والا نمرود بھی اپنے جھوٹ کے ساتھ عبرت کا نمونہ بنتا ہے۔
کذب کا مادہ ’’ک ذ ب‘‘ ہے، اور اس کے معنی حقیقت اور سچائی کے خلاف ہونے کے ہیں۔ کذب بیانی سے مراد ایسی چیز کی خبر دینا ہے جو سچی نہ ہو۔ کاذب اس کا فاعل ہے جو صادق کے عکس ہے۔جھوٹ ام الجرائم ہے۔ یہ ایسا حرام فعل ہے جس سے ہر سلیم الفطرت شخص گھن کھاتا ہے۔اور یہ اخلاق…
افشاں نوید۔کراچی
’’بتول‘‘ تو اس خاندان کو اپنی فیملی کی طرح عزیز ہے۔
میں خالہ جان ثریا اسماء کے ساتھ نسیم ظفر بھائی کی تعزیت کرتے ہوئے ان کے لفظ لفظ سے بتول کی محبت کو محسوس کر رہی تھی۔
بولیں:’’نسیم بیٹے کا سفرِ آخرت تھا اور اسی وقت ملازم بتول کے تیار پرچے لے کر جا رہا تھا۔ یہ اللہ کی مدد تھی ورنہ اتنے شدید صدمے کی حالت میں یہ کام متاثر ہو جاتا‘‘۔پھر خالہ جان کا اصرار کہ صائمہ غم والم کی شدید کیفیت میں ہے آپ بتول کے ساتھ تعاون کیجیے۔
میں نے رخصت ہوئے ہوئے کہا:’’ صائمہ جو تعاون بتول کے لیے درکار ہو میں حاضر ہوں‘‘۔
صائمہ نے مخصوص انداز میں دھیمے سے مسکراتے ہوئے کہا ’’تعاون تو آپ کی تحریر ہی ہے‘‘۔
اور پھر ….
جب اگست کا شمارہ ہاتھ میں آیا تو میں حیران ہوئی کہ صائمہ نے کس طرح اپنے ذاتی غم کو چند سطروں میں سمیٹ کر امت مسلمہ کے غم اور ملکی حالات کی نشان دہی کی۔سیدی مودودیؒ نے اپنی تفسیر میں کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی الہامی مثال کی جو تفصیل بیان کی ہےکہ اس پاک بیج سے پیدا ہونے والا درخت اتنا پاکیزہ ہوتا اور ایسے برگ و بار لاتا ہے،جبکہ کلمہ خبیثہ…
اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ پاکستان کا قیام اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت ، تدبیراورحکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ جب کوئی قوم اللہ رب العزت سے اس وعدے سے آزادی طلب کرے کہ ہم آزاد خطے میں قانون الٰہی کی بالا دستی کریں گے تو کچھ بعید نہیں اللہ تعالیٰ اسے ضرورآزادی جیسی نعمت سے نوازتا ہے۔
قیام پاکستان رب کائنات کا معجزہ تھا وگرنہ تاریخی عوامل شاید ہیں کہ پاکستان کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا وہ اس طرح کہ برصغیرمیں مسلمانوں کی نسبت ہندوعددی اعتبار سے زیادہ تھے تعلیم صنعت تجارت ہر لحاظ سے آگے تھے ۔ہندو ستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف مسلمانوں اور ہندوئوں کے رد عمل میں واضح فرق تھاکیونکہ ہندو پہلے مسلمانوں کے محکوم تھے اور اب انگریزوں کے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نفسیاتی کیفیت مختلف تھی تخت وتاج سے معزول ہو گئےعزت سے ذلت کا سامنا کرنا پڑا یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے اندر رنج وغم کی شدت کے ساتھ ساتھ بغاوت کے جراثیم بھی پیدا ہوئے 1707ء میں اورنگ زیب کا انتقال کے ڈیڑھ سوسال بعد مسلمانوں کی سیاسی تنزلی کی بھی تکمیل ہوگئی سیاسی ، سماجی…
زندگی کبھی کبھی اتنی بے رحم ہو جاتی ہے کہ انسان کو اپنی جگہ چھوڑ کر ایک اجنبی دنیا میں بسنا پڑتا ہے اور اس نئے جہان میں قید ہونا ایک ایسی اذیت ہے جو کسی بھی انسان کو مکمل طورپر توڑ پھوڑ سکتی ہے ۔ ایسی ہی ان گنت دل خراش داستانیں اس جیل کی چار دیواری میں جنم لیتی ہیں اوریہیں دفن ہوجاتی ہیں ۔ یہ ان عورتوں کی کہانیاں ہیں جوکسی چھوڑے یا بڑے جرم کی مرتکب ہو کر اپنے گھروں سے دور مقید ہیں۔
اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں ان عورتوں نے بھی خواب دیکھے تھے ۔ محبت کے ، خوشبوئوں کے ، ہنستے بستے خاندان کے ….وہ بھی اپنے گھروں میں خوشیوں کے دیے جلاتی تھیں ۔ بچوں کی کلکاریاں ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتی تھیں ۔ شوہرکے ساتھ زندگی کی راہوں پرچلتی تھیں مگر پھرایک دن ایسا آیا کہ ان کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا ۔یہ گھٹائیں کسی غلط فہمی ،جرم یا کسی حادثے کا نتیجہ تھیں مگراس اندھیرے نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
ہم یعنی ویمن ایڈ ٹرسٹ والے ان قیدی خواتین کی اصلاح اوران کے لیے زندگی کی خوشیوں کے راستے کھولنے کی حتی المقدور…
(اگرچہ یہ بھارتی ٹی وی چینل پر نشر ہؤا مگر یہ چینل پاکستان میں دیکھا جاتا ہے اور خاص بات یہ کہ اس کی کاسٹ میں سب نمایاں نام پاکستانی مقبول اداکاروں کے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی ناظرین اس کا خصوصی ہدف تھے۔ علاوہ ازیں یہ یو ٹیوب پر بھی ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہورہا تھا۔مدیرہ)حال ہی میں زی ٹی وی کی پیشکش’’برزخ‘‘ نے معاشرے میں بے چینی پھیلا دی۔
اس پرکچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا، جبکہ پاکستان میں یو ٹیوب پر اس کی آ خری قسط بھی آن ائیر ہو چکی تھی۔اس ضمن میں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں جن پر غور وفکر ضروری ہےـمثلاً! یہ کہ ہمارے معاشرے میں میڈیا کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اور کیا ہے؟اس کے کیا اثرات معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں؟کیا میڈیا کے مقاصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں سے ہم آہنگ ہیں،یا میڈیا کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہا ہے؟
ان سوالات سے جڑا ایک واقعہ ذہن میں تازہ ہو گیا۔
یہ 80 کی دہائی کا زمانہ تھا، پی سی لاہور میں پروفیشنل خواتین کے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔سیمینار ہال کے باہر بڑے بڑے پوسٹر آویزاں تھے جن میں مختلف پیشوں سے متعلق خواتین کی تصویریں تھیں۔ڈاکٹر،…
نکاح جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں رکھا گیا تھا۔ صبح اٹھتے ہی سب مرد نہا دھو کے نکاح میں جانے کے لیے تیار ہورہے تھے اور جسے اصل میں تیار ہونا تھا وہ پورے گھر میں بولایا بولایا پھر رہا تھا۔ علی کا نکاح کا جوڑا ہی نہیں مل رہا تھا ۔
ایک ایک جگہ چھان لی گئی پر جوڑا نہ ملا ۔سب نے مشورہ دیا کہ کوئی اور کپڑے پہن کے چلے جاؤ پر علی کمرے میں سر منہ لپیٹ کے پڑگیا۔
’’میرا ڈزائنر جوڑا ہے مجھے وہ ہی پہن کے جانا ہے ورنہ میں نہیں جاؤں گا‘‘۔ علی بچوں کی طرح روٹھ کے بیٹھا تھا۔
’’یہ کیا بچپنا ہے علی…. کسی پڑوسی کا نکاح تھوڑی ہے جو تمہارا موڈ خراب ہوگا تو تم نہیں جاؤ گے اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ابھی بھائی جان غصہ کرتے ہوئے آجائیں گے۔ اٹھو ،کوئی بھی دوسرا سوٹ پہن کے چلے جاؤ، اتنے سارے کپڑے ہیں تمہارے پاس‘‘۔ شازمہ علی کے سر پہ کھڑی منتیں کر رہی تھی پر وہ منہ پھلائے پڑا تھا۔
’’میں نے اتنے شوق سے بنوایا تھا ۔ایک تو پہلے سے کسی کو خیال نہیں آیا کہ دولہا کے کپڑے استری کر کے رکھ دے اب آخر…
سرسبز،اونچے اونچے پہاڑوں سےگھری، رنگ برنگے پھولوں سے لدی وادی میں اپنی سہیلیوں کے سنگ جھولا جھولتے اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ آسمان کو چھو لے گی کہ اچانک جھولا بہت تیز ہو گیا۔
’’روکو، روکو میں گر جاؤں گی، بہت زور کی چوٹ لگ جائے گی‘‘، آ ٹھ سالہ عندلیب خواب میں روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔
’’ہوش میں آؤ عندلیب، اٹھو جلدی، ہمیں یہاں سے فوراً نکلنا ہے‘‘۔
شبیر کی آواز پر اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں۔ ہر طرف شور وغل تھا۔ ہر شےجیسے ہل رہی تھی۔ گھر، دیواریں، آس پاس کے درخت کسی مدہوش نشئ کی طرح جھومتے اور گرتے چلے جا رہے تھے۔
’’یہ سب کیا ہو رہا ہے بابا‘‘ عندلیب نے خوف سے پھیلی آ نکھوں سے شبیر کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
جواب دینے کی مہلت کہاں تھی، ایک لمحہ ضائع کئے بغیر شبیر اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے دروازے کی طرف تیزی سے مڑا اور بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ صرف دو منٹ بعد ہی دھماکے کی آواز کے ساتھ گھر زمین بوس ہو چکا تھا۔
شبیر عندلیب کا ہاتھ پکڑے ایک انجانی منزل کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا۔ بیوی اور بیٹوں کو گھر سے نکال کر بھاگنے کی تلقین کرتے…
پاکستان میں اردو قومی زبان سے کہیں زیادہ قومی مذاق کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان میں جس چیز کے ساتھ ’’قومی‘‘ لگ جاتا ہے یا لگا دیا جاتا ہے اس کی حالت آثارِ قدیمہ کی سی ہو کر رہ جاتی ہے جیسے پاکستان کا قومی پھول یاسمین یا قومی کھیل ہاکی۔ جو حالت ان دونوں کی ہے وہ قابلِ رحم اور قابلِ عبرت سے کم نہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ کراچی کی ملوں کے وہ اوقات جس میں کام شروع ہوتا یا باری تبدیل ہؤا کرتی تھی تو وہ سڑکیں جو ملوں اور کارخانوں کی جانب جایا کرتی ہیں، ان پر آنے جانے والے انسانوں کا سمندر دیکھا جا سکتا تھا لیکن بد قسمتی سے جب سے یہ ملیں اور کارخانے’’قوم‘‘کی ملکیت میں لے لیے گئے، ان دونوں اوقات میں ایسا سناٹا چھایا ہؤا نظر آتا ہے جیسے خدا نہ خواستہ لوگ اجتماعی جنازوں میں شرکت کرنے جا رہے ہوں۔
بات سوشل میڈیا کی ہو، ٹیلی ویژن چینلوں کی ہو یا پرنٹ میڈیا کی، عالم یہ ہے کہ جو کچھ چھاپا جا رہا ہے، سنایا جا رہا ہے، دکھا یا جا رہا ہے یا پڑھا یا جا رہا ہے، لگتا تو ہے کہ…
رات کو ہوا کے دوش پر آل انڈیا ریڈیو سے ’’تعمیلِ ارشاد‘‘میں گانا لگا ہؤا تھا۔
گھر آیا میرا پردیسی…. پیاس بجھی میری اکھیوں کی۔
’’ رکو رکو….ذرا آواز اونچی کرنا….یہ گانا تو راحیل کو بہت پسند ہے….‘‘
’’ ہیں یہ راحیل کہاں سے آگیا؟‘‘
ابھی تو وہ زبردستی مجھے اپنی نئی محبت کی کہانی سنارہی تھی جس کا ہیرو علی تھا۔وہ اس کے پاس کچھ دن ریاضی پڑھنے کے لیے جاتی رہی تو علی نے ایک دن حساب پڑھاتے ہوئے اپنے بے حساب پیار کی کہانیاں بھی اسے سنا ڈالیں۔
’’یار راحیل میری پھوپھی زیتون کا بیٹا ہے ناں ….بیچارہ میرے پیچھے پیچھے رہتا ہے‘‘۔
’’لیکن تم تو علی کے بارے میں بتارہی تھیں۔اور ابھی مہینہ بھر پہلے جب میں گاؤں گئی تھی تو تمہیں لمبرداروں کا شوکت بہت پسند تھا‘‘۔
شوکت کو سب شوکا کہتے تھے جب کہ میں اسے ’’شوخا‘‘کہتی تھی۔بوسکی کا سوٹ، تلّے والی کھیڑی، سونے کے بٹن اور تیز پرفیوم والا شوخا!
’’یارا….پسند تو میں شوکت کو کرتی ہوں لیکن راحیل بیچارہ میرے بہت آگے پیچھے پھرتا ہے…. اور محبت تو خیر علی سے کرتی ہوں لیکن سچا پیار صرف زہیب سے ہے‘‘۔
’’ توبہ ہے ….! اب یہ زہیب کون ہے ؟ ‘‘میری آنکھیں اور منہ بیک وقت کھلے کے کھلے رہ گئے۔
یہ…