کھلونے ۔ حمیرا بنت فرید
ننھے منھے ہاتھوں نے مضبوطی سے اس کے دامن کو پکڑا ہوا تھا۔ صبا نے ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلا کرتے ہوئے انھیں چوما اور کھلونوں سے بھرا ایک شاپر اس کے حوالے کرتے ہوئے بڑی عجلت سے دروازہ بند کرتی ڈے کیئرسینٹر سے باہر نکل گئی۔ دو چار دن تو ہبہ کھلونوں سے بہل گئی لیکن اسے بھی اب اندازہ ہو گیا تھا کہ ماں اس کو یہ چیزیں دے کر شام تک کے لیے اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ صبا کے باہر نکلتے ہی وہ بے قابو ہو جاتی اور اس کی التجائی چیخیں جو وقت کے ساتھ ساتھ احتجاج میں تبدیل ہو چکی تھیں، دور تک اس کا پیچھا کرتیں۔ خواتین کارکنوں نے کچھ دن اس کے ناز اٹھائے لیکن پھر اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یوں ہبہ نے بھی سمجھوتہ کر لیا۔
صبابھی مجبورتھی۔وہ کوئی خوشی سے اپنی لخت جگرکوڈے کیئر کے حوالےکرکےنہیں جاتی تھی۔اس کاشوہرایک معمولی سی ملازمت کرتاتھا جس سےگزاراتوہورہاتھامگربڑھتی ہوئی مہنگائی نے انھیں مستقبل کے لیے بہت کچھ سوچنےپرمجبورکردیاتھا۔اپنی بیٹی کو ہرطرح کی آسائش اور خوشی دینااس کاخواب تھاسواس نےنوکری کرلی تھی۔میکےاورسسرال میں کوئی ایسا نہ تھا جس کےپاس وہ ہبہ کو چھوڑ سکتی ایسے میں ڈےکیئرہی اسے مناسب انتخاب لگا…

