ذکیہ فرحت

روح و جسم – بتول جنوری ۲۰۲۲

فلسفہ ابھرا ہے روح و جسم کی تقسیم کا پھر بپا ہے معرکہ نمرود و ابراہیم کا روح تن سے گر الگ ہو جائے کیا باقی رہے مسئلہ ہے یہ تو ذہن و عقل کی تفہیم کا جسم ہوتاہے توانا روح کی تحریک سے پھینک دو باہر اٹھا کر فلسفہ دونیم کا معرکہ ہے حق و باطل کا ازل سے تا ابد ہے یہ نسخہ کارگاہِ زیست کی تنظیم کا معرکہ ہو عشق کا تو کود جا تو بے خطر دے رہا ہے یہ سبق ایمانِ ابراہیم کا اہم ہے رب کی رضا تیری رضا کچھ بھی نہیں مسئلہ ہے یہ تو میرے آپ کے تسلیم کا اس شہادت گاہِ الفت میں قدم رکھتا ہے جو پھر وہ پالیتا ہے تحفہ کوثرو تسنیم کا زیست پر وہ حکمراں ہے موت پر بھی حکمراں ربط ہے اس ذات سے میرا امید وبیم کا

مزید پڑھیں

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی – بتول جنوری ۲۰۲۳

غالبؔ نے برسوں پہلے اپنے ایک مصرع میں کہا تھا ؎ ’’ لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور‘‘ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ جو بات وہ مزاح میں کہہ رہے ہیں وہ ایک دن واقعی حقیقت کا روپ دھار لے گی ۔ آج بدلتے زمانے اور گزرتے وقت نے اسے سچ ثابت کر دیا ۔ وہ زندہ ہو تے تو دیکھتے کہ اس بازار دنیا میں ہر چیز ملتی اور بکتی ہے یہاں تک کہ جنس آدمیت بھی۔ نیرنگیِ زمانہ نے ہر چیز کو بدل دیا ہے تہذیب و اقدار بدلیں طور طریقے بدلے ، شکل و صورت بدلی، ناز وانداز بدلے ہاتھ ، پائوں ، دل گردے تک بدل دیے گئے اور اب تو جسمانی ساخت کی تبدیلی کے ساتھ وہ وقت آگیا ہے کہ صنفی شناخت بھی تبدیل کی جا رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم کیا

مزید پڑھیں