کوٹھا کہان – بتول اگست ۲۰۲۴
جناب حسرت موہانی خیر سے فرما چکے:
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
یقیناً شاعر کے ممدوح محترم کو بھری دوپہروں میں یہ جرأت اس وجہ سے عنایت ہوتی تھی کہ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں گھروں کی چھتیں ،جو عرف عام میں کوٹھے کہلاتی تھیں۔ڈھنڈار خالی ،خانۂ ویراں کی تصویر پیش کرتی تھیں۔ اہلِ خانہ ٹھنڈے کمروں میں کواڑ بھیڑے استراحت فرماتے تھے۔ کسی کسی چھت پہ پتنگیں لوٹنے کے درپے لونڈے لپاڑوں یا کبوتر بازوں کی موجودگی کا احتمال ممکن تو ہے لیکن ایسا خال خال ہی ہوتا ہو گا۔ سو یہ کوٹھے شاعر اور اس کے محبوب کے لیے بطور سہولت کار ہمیشہ میسر رہتے۔
پنجاب کے دیہاتوں میں یہی ویران کوٹھے البتہ شام پڑتے ہی آباد ہونا شروع ہوجاتے۔اور یوں آباد ہوتے کہ بقول سلیم احمد :
اپنے سینے میں جو آباد ہے چاکیواڑہ
پختہ ونیم پختہ کوٹھوں کے اندر محبوس ہو کر دوپہریں گزارنے والے دیہاتی حشرات الارض کی طرح چھتوں کی جانب سمٹنے لگتے۔ مرد کھیتوں اور دیہاڑیوں سے لوٹتے، اورنہا دھو کر اوپر کا رخ کرتے ۔ ضرورت کی چیزیں ایک ایک کرکے اوپر پہنچائی جاتیں۔روٹیوں سے بھری چنگیر،گوشت،ترکاری کی ہانڈی،برتنوں کا تسلہ،صراحی، پیالہ اور ہتھ پنکھے…

