مختار جاوید

غزل – مختار جاوی

کہیں بدن ، کہیں محفوظ پر نہیں ہوتے
ہر اک شجر پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے
سفر کے بعد ذرا سا سنبھلنا پڑتا ہے
ر کے بغیر مکمل سفر نہیں ہوتے
ہم اپنا نام نہیں بیچتے کسی بھاؤ!
امیر ہم سے ، بھی اہلِ زر نہیں ہوتے
کسی چراغ تلے کچھ نظر نہیں آتا
چمک دمک میں اندھیرے کدھر نہیں ہوتے
وہ جن کی سوچ کو زنجیر کر دیا جائے؟
رہا بھی ہوں تو رہا عمر بھر نہیں ہوتے
اُڑیں تو روکتی ہے آسمان کی دیوار
چلیں تو پاؤں کے آگے سفر نہیں ہوتے
تمہارا ساتھ میسر نہیں ہوا ورنہ
ہمارے ساتھ زمانے کے ڈر نہیں ہوتے
زمیں
آدمیوں کو اماں نہیں مانتی
فلک پر چاند ستاروں کے گھر نہیں ہوتے
چمن میں نت نئی پرواز کو نکلتے ہیں
قفس میں جیسے پرندوں کے پر نہیں ہوتے

مزید پڑھیں