سال کا آخری سورج – رمانہ عمر -ریاض
میں سال کی آخری شام افق پہ پھیلے نارنجی اور گلابی ڈورے بادلوں کی اوٹ سے نکلتے دیکھنے میں محو تھی کہ مجھے اچانک یوں محسوس ہؤا کہ زرد گولا آج بہت ہی اداس ہے بلکہ یوں لگا کہ موٹے موٹے آنسو گرا رہا ہے ۔ خیر ویسے تو یہ محض دنیا والوں کے بنائے گھڑیال اور جنتر یاں ہیں جنہوں نے اسے ماہ و سال میں تقسیم کر رکھا ہے ورنہ اس کا اصل کا م تو ہر صبح نئ امیدیں اپنی جھولی میں لیے طلوع ہونا اور ہر شام اداسیوں کے سائے بکھیرتے اندھیرے کی چادر پھیلاتے ہوئے غروب ہو جانا ہے ۔ لیکن پھر بھی کچھ تو ہے کہ 31دسمبر کچھ زیادہ ہی مضمحل اور مایوس ہے ۔ اداسی مجھے اپنے رگ وپےمیں اترتی ہوئی باقائدہ محسوس ہونے لگی اور پھر شاید میرے کان بھی بجنے لگے یا شاید وہ اپنی سولر لہروں کے ذریعے مجھ سے محوکلام ہو گیا ۔ وہ مجھے ریڈیائی لہریں بھیج رہا تھا اور میرا دل ،دماغ، بلکہ میرا رواں رواں اس واضح پیغام کو وصول کر رہا تھا ۔ ہم دونوں کنکٹڈ ہو چکے تھے ۔
وہ کہہ رہا تھا ۔
بوڑھا ہو گیا ہوں تھک چکا ہوں ۔ لیکن اپنی ذمہ داری…