بتول اگست ۲۰۲۴

ابتدا تیرے نام سے – بتول اگست ۲۰۲۴

قارئین کرام! سلام مسنون
اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ ذاتی زندگی میں ایک عظیم صدمہ اٹھانےکے بعد ایک ماہ کے فرق سے دوبارہ آپ سے مخاطب ہوں۔ یہ ہمت اللہ ہی نے عطا کی ہے، ہم سب اسی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ میں ادارہ بتول کی معزز ممبران کی بے حد ممنون ہوں ، خصوصاً نائب مدیرہ آسیہ راشد صاحبہ کی جنہوں نے جولائی کا شمارہ ترتیب دیا اور اس کارِ خیر میں تعطل نہ آنے دیا۔ دور نزدیک سے بےشمار بہنیں تشریف لائیں، ان سے بھی زیادہ احباب اپنے پیغامات اور کالز کے ذریعے میرے غم میں شامل ہوئے، میں سب کے لیے سراپا سپاس ہوں۔جانے والے نے بے حدوحساب اچھی گواہیاں کمائیں اور بے شمار صدقہ جاریہ چھوڑاہے۔بتول کے کام میں ابتدا ہی سےمیری معاونت اور قدردانی کی، خصوصاً اداریہ پڑھ کر ہمیشہ خوشی کا اظہار کیا، ویب سائٹ کے کام کی ذمہ داری لیے رکھی، تحریک کو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے فائدہ دینے کے لیے تن من دھن سے حاضر۔ایک ہر دلعزیز، محبوب، سیماب صفت ،جری اور توانائی سے بھرپور شخص، عشقِ رسول ﷺ سے لبالب بھرا ہؤا،مملکت خداداپاکستان اور بانیانِ پاکستان سے محبت جس کے ایمان کا…

مزید پڑھیں

ایپی ڈیورل – بتول اگست ۲۰۲۴

چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی سدرہ تھی، سدرہ بختیار احمد!
چوہدری بختیار احمد کے دو بیٹے اور چار بیٹیوں میں سب سے لاڈلی سب سے منفرد ، شکل اور عقل دونوں میں بے مثال!
چوہدری بختیار احمد خود نیک فطرت تھے اس لیے انہیں اس بات میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوئی تھی کہ اندرونی معاملات ہوں یا بیرونی وہ گھر میں اپنے اہل خانہ سے مشاورت ضرور کیا کرتے تھے اور یہ اتفاق تھا یا نہیں لیکن ہر مرتبہ سدرہ کا مشورہ سب سے منفرد ہوتا،جب اس پر عمل کیا جاتا تو ہمیشہ بہت اچھا نتیجہ سامنے آیا۔
اس کے بعد تو سدرہ بی بی گھر اور گھر سے باہر مشوروں کی پٹاری کے لیے مشہور ہو گئی۔اس کی ہنس مکھ اور ہر کسی سے اچھے لہجے میں بات کرنے کی وجہ سے ہر کوئی اپنی مشکلات کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے سدرہ کی سماعت کو استعمال کرنا موزوں سمجھتا۔کبھی بڑی امی کا فون آرہاہے کہ ان کی صاحبزادی عتیقہ صاحبہ آج کل مردم بیزار پائی جاتی ہیں۔کبھی ممانی نصرت یاد فرماتیں کہ ان کے منجھلے صاحبزادے مونس انگلیاں بہت چٹخانے لگ گئے ہیں ، سدرہ رانی کیا ہر بچہ بلوغت کے آغاز میں انگلیاں چٹخاتا ہے؟
الغرض جتنے منہ…

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول اگست ۲۰۲۴

سوچ
ام حمزہ
’’ یہ کباب تو لو بھئی اور یہ بتاؤ چائے چلے گی یا شربت‘‘۔سعدیہ نے مریم سے پوچھا۔
’’وقت تو چائے کا ہے مگر گرمی اتنی ہے کہ شربت ہی بنالو‘‘۔مریم نے جواب دیا۔
سعدیہ نے بیٹی سے شربت بنانے کے لیے کہا اور دونوں سہیلیاں آرام سے بیٹھ گئیں۔
سعدیہ اور مریم نے ساتھ ہی ماسٹرز کیا تھا۔پڑھائی کیا ختم ہوئی سب سہیلیوں کا ساتھ ہی چھوٹ گیا۔
بھلا ہو مریم کا جس نے ڈائری میں سب سہیلیوں کے نمبر نوٹ کر رکھے تھے اور مہینہ دو مہینہ میں بات کرلیتی تھی۔اس وقت نہ واٹس ایپ تھا اور نہ موبائل فون ۔بس لے دے کے ایک پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن ہوتی تھی۔
گزرتے وقت کے ساتھ سب سہیلیوں کے رابطے کم اور پھر ختم ہوتے گئے اب صرف سعدیہ اور مریم ہی رابطے میں رہ گئیں اس کی وجہ مریم کی معاملہ فہمی اور سمجھداری تھی جب سعدیہ کسی مشکل میں پھنسی مریم کے مشورے سے وہ آسان ہو گئی۔
اب سعدیہ کا اصرار تھا کہ میرے گھر کا چکر لگاؤ اسی لیے آج دونوں سہیلیاں آرام سے آمنے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں
’’میرا فلیٹ ڈھونڈنے میں مشکل تو نہیں ہوئی‘‘ سعدیہ نے پوچھا۔
نہیں بھئی مین روڈ اور جانا پہچانا…

مزید پڑھیں

فرضِ عین – بتول اگست ۲۰۲۴

جلدی جلدی کے شور میں بھی ہانیہ نے جاتے جاتے ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی ،کچھ رہ تو نہیں گیا! مطمئن اب بھی نہیں ہوئی تھی لیکن ساتھ مسلسل بجتی فون کال نے نے مجبور کر دیا کہ گھر سے نکل ہی جائے ۔ وقت پر پہنچنا ضروری تھا مریم کی سالگرہ تھی اور سب دوستوں نے باہر آؤٹنگ کا پلان بنایا تھا۔
اکٹھے ہونے کے لیے مقرر جگہ جب وہ پہنچی تو مریم اور منتہیٰ کے علاؤہ کوئی نہیں آیا تھا ۔اسے کوفت ہوئی لیکن یہ اچھا ٹائم تھا سیلفی بنانے اور سوشل میڈیا کی مختلف ایپس پر لگانے کا۔ باقی سب بھی اب آنا شروع ہو گئے تھے موسم کوئی اتنا اچھا تو نہیں تھا لیکن دل کا موسم اچھا ہو تو سب اچھا لگتا ہے اس لیے سب اچھا کی ہی رپورٹ تھی ، احمد حمزہ اور طارق بھی آگئے تھے۔ سب نے اپنے قیمتی وقت میں سے مریم کے لیے وقت نکال ہی لیا تھا، آخر کو چار سالوں کا ساتھ تھا۔
’’مجھے لگ نہیں رہا تھا کہ تم آؤ گے‘‘ مریم نے کئی بار کا دہرایا ہؤا جملہ دوبارہ بے یقینی سے دہرایا ،چہرے سے خوشی عیاں تھی۔
(( تم نے اصرار کیا تھا اس لیے آج…

مزید پڑھیں

لیموں کے فوائد – بتول اگست ۲۰۲۴

پھل صحت مند غذا کا ایک لازمی حصہ ہیں اور تمام فلاح و بہبود کے لیے بے شمار فوائد فراہم کرتے ہیں۔ پھل وٹامنز ، معدنیات اور اینٹی آکسیڈینٹ سے بھرپور ہوتے ہیں جو بہترین صحت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں خاص طور پر کھٹے پھل ،بیری اور سیب وٹامن سی پر مشتمل ہوتے ہیں جو کہ انفیکشن سے قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ بہت سے پھل جیسے کہ ٹراپیکل پھل اور بیری میں سوزش کو کم کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کہ سوزش کو کم کرتے ہیں اور صحت کو بہتر بناتے ہیں۔ کیلے، بیری اور سیب جیسے پھل غذائی ریشے سے بھرپور ہوتے ہیں جو صحت مند ہاضمے کو فروغ دیتے ہیں اور قبض کو روکتے ہیں۔ کچھ پھل جیسے پپیتا انناس اور بیری میں اینٹی آکسیڈینٹ اور وٹامن ہوتے ہیں جو صحت کو فروغ دیتے ہیں اور بڑھاپے کی علامت کو کم کرتے ہیں۔ کیلے ،آڑو اور کٹائی جیسے پھلوں میں پوٹاشیم کیلشیم اور دیگر معدنیات ہوتے ہیں جو صحت مند ہڈیوں کو فروغ دیتے ہیں اور آسٹیو پوروسس کے خطرات کو کم کرتے ہیں۔
لیموں غذائیت سے بھرپور ایک کھٹا پھل ہے جو کہ متعدد صحت کے فوائد پیش کرتا ہے۔ مختلف قدرتی…

مزید پڑھیں

عدم اعتراف – بتول اگست ۲۰۲۴

تاریخ انسانی میں انسانوں نے جو سب سے بڑاجرم کیا وہ ’’عدم اعتراف‘‘ ہے۔ اور سب سے بڑا جرم الله تعالیٰ کی وحدانیت کا عدم اعتراف ہے۔اپنے ہی جیسے الله تعالیٰ کے چنیدہ بندوں کو هہادی و راہنما کے طور پہ قبول نہ کرنا بھی انسانی تاریخ کا جرم عظیم رہا۔
مال و دولت، تخت و تاج والوں نے بھلا دیا کہ یہ جاہ و حشم عارضی ہے۔ دنیا کے فانی ہونے اور اعمال کی جواب دہی کا عملاً عدم اعتراف ہمیشہ پستی کی دلیل بنا۔
زندگی سدا ایک جیسی نہیں ہوتی دھوپ چھا ؤں گرمی سردی کی طرح رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ زندگی اسی کا نام ہے کہ اس کی ناخوش گواریوں کا خوش گواری کے ساتھ سامنا کیا جائے۔
تکلیف، غم،دکھ سے واسطہ پڑے تو جب تک اس حقیقت کا اعتراف نہ کر لیا جائے گا اس سے نپٹنے کا طریقہ کیسے سمجھ آئے گا؟
زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا سب سے ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت سے ان کا سامنا کیا جائے۔ زندگی کی ذمہ داریا ں نبھانا بھی ایک مشقت بھرا کام ہے جو فرد اپنی ذمہ داری کا اپنے عہدے کا اعتراف سچے دل سے کرتا ہے…

مزید پڑھیں

خلافتِ ارضی کی امانت – بتول اگست ۲۰۲۴

اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا ایک خلیفہ مقرر کرنے کا ارادہ کیا، اس کے ذمہ ایک بھاری امانت کی ادائیگی تھی۔اللہ تعالیٰ نے س امانت کو کئی مخلوقات کے سامنے پیش کیا، مگر وہ اس کے اٹھانے سے عاجز رہے، ارشاد الٰہی ہے:
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے‘‘۔ (الاحزاب،۷۲)
اس جگہ امانت سے مراد وہی ’’خلافت‘‘ ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔اس لفظ ’’امانت‘‘ کو قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہاں انہی کے لیے امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت اور متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتے تھے، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے۔(تفہیم القرآن، تفسیر…

مزید پڑھیں

کھلونے – بتول اگست ۲۰۲۴

رحماء اور اس کا بیٹا فرحان بڑے شوق سے ٹی وی پر نشر ہونے والی یوم پاکستان 23 مارچ کی تقریب دیکھ رہے تھے۔ پاک فوج کی پریڈ، اسلحہ اور میزائلوں کا نظارہ، فوجی طیاروں کا ہوائی مظاہرہ سب ہی انتہائی پر شکوہ اور دل کو چھو لینے والا تھا۔ رحماء بیٹے کو 23 مارچ کے حوالے سے معلومات دے رہی تھی اور فرحان بھی جوش سے بھرا ان سب نظاروں کو دل میں اتار رہا تھا۔
پروگرام کے اختتام پر فرحان نے رحماء کا بازو ہلاتے ہوئے کہا۔’’امی! امی! مجھے بھی ایسی ہی گن چاہیے جیسے اس میں دکھا رہے ہیں‘‘۔
رحماء مسکرا دی۔
’’کیوں بیٹے آپ کے پاس تو پہلے ہی اتنی ساری گنز، کار، ٹینکر اور آرمی کی چیزیں ہیں۔ اب یہ والی گن بھی لینا ہے؟‘‘
اسے اپنے بیٹے کے شوق کا پتہ تھا۔ اسے آرمی سے متعلق چیزوں کا شوق تھا۔ ہر طرح کی بندوقیں، ٹینک، جہازوں اور ہیلی کاپٹرز کے ماڈل اور نا جانے کیا کیا چیزوں سے اس کا کمرہ سجا ہؤا تھا۔ اب یہ اور بات تھی کہ اسے بس جمع کرنے کا شوق تھا ان سے کھیلتا بہت کم تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ رحماء اکلوتے بیٹے کی کسی…

مزید پڑھیں

خواب سراب – بتول اگست ۲۰۲۴

سورج طلوچ ہوتے ہی جیل کے اندر کی دنیا انگڑائی لے کر آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگتی ۔ بلوری آنکھوں والی قحبہ خانے کی مالک لالہ مائی اورپکی رنگت والی شیدی تو نماز کے بعد تسبیح لے کربیٹھ جاتیں ، کوٹھری کی دوسری عورتیں اپنے اپنے بستروں پرپڑی کسلمندی سے کروٹیں لیتی رہتیں ۔ لالہ مائی اونچی آواز میں سب کونماز پڑھنے کا کہہ کر پھر تسبیح کے دانے گرانے لگتی ۔ جوں جوں دن چڑھتا جاتا جیل کی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ۔ صبح صبح بیٹھے بٹھائے ناشتہ کرنے کی تیاری شروع ہوجاتی ۔ ناشتہ کے بعد دبلی پتلی فہمیدہ جوچوری کے کیس میں آئی تھی اپنے دس ماہ کے ببلو کے کپڑے دھونے میں مصروف ہوجاتی ۔ کسرتی بدن اورسانولی رنگت والی تیس بتیس سالہ کرن جواغوا کے کیس میں ملوث تھی ،حدود کے کیس والی صغریٰ سے اپنے چہرے اوربدن کا مساج کروانے کی تیاری پکڑنے لگتی ۔بیس بائیس سالہ شکیلہ جو خاندانی جھگڑوں میں اپنے بھائیوں سمیت جیل میں تھی ، تمام دن اوندھے منہ بسترپرپڑی سسکتی رہتی ۔ اس کے پڑھنے لکھنے کے تمام خواب چکنا چور ہوچکے تھے ۔
ان تمام مصروفیات میں مائی سکینہ سب سے الگ تھلگ اپنے دکھوں کی…

مزید پڑھیں

کوٹھا کہان – بتول اگست ۲۰۲۴

جناب حسرت موہانی خیر سے فرما چکے:
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
یقیناً شاعر کے ممدوح محترم کو بھری دوپہروں میں یہ جرأت اس وجہ سے عنایت ہوتی تھی کہ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں گھروں کی چھتیں ،جو عرف عام میں کوٹھے کہلاتی تھیں۔ڈھنڈار خالی ،خانۂ ویراں کی تصویر پیش کرتی تھیں۔ اہلِ خانہ ٹھنڈے کمروں میں کواڑ بھیڑے استراحت فرماتے تھے۔ کسی کسی چھت پہ پتنگیں لوٹنے کے درپے لونڈے لپاڑوں یا کبوتر بازوں کی موجودگی کا احتمال ممکن تو ہے لیکن ایسا خال خال ہی ہوتا ہو گا۔ سو یہ کوٹھے شاعر اور اس کے محبوب کے لیے بطور سہولت کار ہمیشہ میسر رہتے۔
پنجاب کے دیہاتوں میں یہی ویران کوٹھے البتہ شام پڑتے ہی آباد ہونا شروع ہوجاتے۔اور یوں آباد ہوتے کہ بقول سلیم احمد :
اپنے سینے میں جو آباد ہے چاکیواڑہ
پختہ ونیم پختہ کوٹھوں کے اندر محبوس ہو کر دوپہریں گزارنے والے دیہاتی حشرات الارض کی طرح چھتوں کی جانب سمٹنے لگتے۔ مرد کھیتوں اور دیہاڑیوں سے لوٹتے، اورنہا دھو کر اوپر کا رخ کرتے ۔ ضرورت کی چیزیں ایک ایک کرکے اوپر پہنچائی جاتیں۔روٹیوں سے بھری چنگیر،گوشت،ترکاری کی ہانڈی،برتنوں کا تسلہ،صراحی، پیالہ اور ہتھ پنکھے…

مزید پڑھیں

ماں کا دُودھ اورملِک بینک کی تجویز – بتول اگست ۲۰۲۴

ایک ننھا بچہ جب دنیا میں آنکھ کھولتا ہےتواس کی زندگی اورحفاظت کا انتظام پہلے سےہی رب کائنات کی طرف سے کردیا جاتا ہے۔اس کے نظام ِخون اورنظامِ تنفس میں پیدائش کے ساتھ ہی ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کی وجہ سے اسے ماں سے علیحدہ اپنی زندگی برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے ۔
پیدائش کے ساتھ ہی جو بہت بڑی نعمت اس کے خالق کی طرف سے اُسے عطا کی جاتی ہے وہ اس کی ماں کا دُودھ ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
بچے کاحق ہے کہ اسے ماں کادودھ پہلے 6 ماہ میں کلیۃً اور2 سال تک دوسری غذا کے ساتھ پلایا جائے ، اورکم وزن یا وقت سے قبل پیدا ہونے والے بچے کے لیے یہ امر بھی ضروری ہے ( جو 37 ہفتے کے حمل سے پہلے پیدا ہوتے ہیں )۔
جہاں تک موخرالذکر بچوں کا تعلق ہے ان کی نگہداشت بہت توجہ اورمحنت کا تقاضا کرتی ہے ، یہ بہت آسانی سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
2020ء کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ان بچوں کی تعداد 13.4ملین تھی (Unicef) ایک رپورٹ میں پاکستان میں ایسے بچوں کی شرح 21.64بتائی گئی ہے جبکہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اصل میں یہ تعداد اس…

مزید پڑھیں

محترمہ زہرہ عبد الوحید کی یاد میں – بتول اگست ۲۰۲۴

ہر دم رواں…. خالہ جان زہرہ عبد الوحید
ہمیں وہ کبھی بوڑھی اور عمر رسیدہ نہیں لگیں ، ہر دم جواں ! پیہم رواں ! ان کے ساتھ گفتگو میں کبھی مرتبے اور عمروں کا تفاوت حائل نہیں ہوا ، انہوں نے کبھی اپنے علم و فضل کی دھاک بٹھانے کی کوشش نہیں کی ، کبھی اپنے تقوی کا رعب نہیں جھاڑا ۔ ان سے کچھ کہنے یا پوچھنے سے پہلے کوئی جھجھک اور خوف آڑے نہیں آیا ، ہمارے بےتکے سوالات کا جواب بھی ہماری ذہنی ساخت اور مزاج سے مطابقت رکھتے ہوئے بڑے دوستانہ لب و لہجہ میں ملا ۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں لاہور منتقل ہونے کے بعد خالہ جان کے ساتھ پہلا تعارف قرآن کریم کے تعلق ہی سے ہوا ۔ قریبی گھر میں درس قرآن میں شرکت کی دعوت ملی تو ہم بھی امی جان کے ہمراہ ہو لیے ۔ یہ تو یاد نہیں کیا سنا، البتہ درس دینے والی خالہ جان کا نام ذہن میں رہ گیا زہرہ عبد الوحید خان ۔ گھر میں سید مودودی رحمہ اللہ سے عقیدت مندانہ تعلق کی بنا پر جب معلوم ہوا کہ یہ خالہ جان بھی ان سے قریبی تعلق رکھتی ہیں تو وہ…

مزید پڑھیں

محشر خیال – بتول اگست ۲۰۲۴

بشریٰ تسنیم۔شارجہ
بہت پیاری صائمہ !
پہلی سماعت پہ دنیا کی سب سے ناقابل یقین خبر کسی کا دنیا سے چلے جانا ہوتی ہے ۔ یہ جانے والا اگر اپنی عزیز دوست کا شریک حیات ہو تو زندگی ایک جھٹکے سے رک سی جاتی ہے لیکن یہ خبر چونکہ رب العالمین کا اٹل فیصلہ ہوتا ہے تو وہ عظیم ہستی اس کا ادراک کروا دیتی ہے اور تھام بھی لیتی ہے ۔
کل نفس ذائقة الموت۔فصبر جمیل انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
جانے والے کے لیے اب دعائے مغفرت کے سوا کوئی خیر خواہی نہیں ۔ ان کے صدقہ جاریہ کے ہر کام کو اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ہر آن عروج عطا فرمائے ۔ سب حسنات قبول فرمائے خطائیں معاف فرمائے ۔ پس ماندگان پہ خصوصی رحمت فرمائے آمین ۔
دلی دعائیں محبت کے ساتھ…. اللہ تعالیٰ تمہیں سکینت عطا فرمائے آمین۔ تم سے بظاہر دور ہوں لیکن دل سے قریب ہو ۔پاکستان ہوتی تو ضرور تمہارے پاس آتی….ان شاءاللہ ملیں گےبشرط زندگی ۔
واللہ مع الصابرین
دل چاہتا ہے جلدی ملاقات ہو بس دونوں خاموش رہیں اور ایک دوسرے کے آئینہ دل میں حالت زار دیکھتے رہیں ۔ خیالوں میں نہ جانے کتنی باتیں کرتی رہتی ہوں، سوچتی…

مزید پڑھیں

میلے کپڑے – بتول اگست ۲۰۲۴

سنہری بال اور کنچی آنکھیں….سچ مچ جیسے کانچ کی گڑیا ….
گود میں لوگی اس کو ؟
ابو نے پوچھا تو میں نے جھٹ سے ہاں کر دی۔
وہ میری چھوٹی بہن تھی،مجھ سے پورے تین سال چھوٹی….نرم ملائم گلابی گلابی۔
میرے لیے تو وہی کل کائنات تھی۔میرا بس چلتا تو ہر وقت گود میں لیے بیٹھی رہتی۔
وقت کے ساتھ میرا پیار محبت،دوستی سب بڑھتی گئ۔ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ،ہم ہر جگہ ساتھ ساتھ رہتے۔کبھی ہماری لڑائی نہ ہوئی،دوستی میں بہناپے کی مثالیں ایسے ہی تو نہیں دیں جاتیں ناں؟ بہن بہن ہوتی ہے….ایک جان دو قالب،ایک دوسرے کا دکھ بنا کہے سمجھنے والی….چپکے چپکے ڈانٹ سے بچانے والی….اپنے حصے کی چیزیں بھی دوسری کو دے کر خوش ہونے والی۔
اسکول پھر کالج….میں شادی ہو کے سسرال آگئی….یہاں کی الگ دنیا اور کام….اچھا خاصا انسان اس دنیا میں ہیرو سے زیرو کے چکر میں آ جاتا ہے….جب کہ میکے میں ساری بچیاں مزے کرتی ہیں….مزے تو سسرال میں بھی ہوتے ہیں….لیکن ذمہ داریوں کے ساتھ….بے فکری اور لا ابالی پن بابل کی دہلیز پار کرتے ہی چھوٹ جاتا ہے۔
بس میکے کا سہارا تھا کہ بچوں کو نوین کے حوالے کرکے بے خود سوتی ہی چلی جاتی….جتنے دن رکتی، بچے نوین کے ہی ذمے ہوتے….خالہ جو…

مزید پڑھیں

نٹ کھٹ زندگی – بتول اگست ۲۰۲۴

بڑے سے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے شازمہ نے مطمئن انداز میں اطراف میں نگاہ دوڑائی۔ پیکنگ تقریباً مکمل تھی۔ اب صرف راستہ کے لیے کھانے پینے کی اشیاء کا انتظام کرنا تھا۔ ان کو آج شام کو نکلنا تھا۔ بھائی جان کے بڑے بیٹے یعنی منال کے بھائی کی شادی میں شرکت کرنے وہ لوگ ایک ہفتے کے لیے کراچی جارہے تھے۔اس نے سوچا پہلے بچیوں کی تیاری دیکھ لے کہاں تک پہنچی۔ وہ کچن میں جاتے جاتے حماد کے کمرے میں آگئی۔
کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر دل کو دھچکا لگا۔ دونوں الماریاں خالی ہوئی پڑی تھیں اور چاروں طرف کپڑے ہی کپڑے پھیلے تھے۔ سنگھار میز کے آگے دو اٹیچی کیس رکھے تھے اور مسہری پر دو جہازی سائز پوٹلیاں جن سے ہانیہ نبرد آزما تھی۔
’’یہ کیا کررہی ہو بیٹا؟‘‘ شازمہ نے حیرت سے پھیلاوے کو دیکھا۔
’’پیکنگ کر رہی ہوں چاچی‘‘۔ مصروف انداز میں جواب آیا۔
’’یہ پوٹلیاں کیوں باندھ رہی ہو اور الماریاں کیوں خالی کی ہیں‘‘اس نے راستے میں پڑے کپڑے جھک کے اٹھائے۔
’’اچھے اچھے کپڑے ڈھونڈ رہی تھی اس لیے سارے کپڑے نکالنے پڑے۔ بیگ اور سوٹ کیس دونوں بھر گئے مزید جگہ ہی نہیں اس لیے باقی سامان کی پوٹلی باندھ رہی…

مزید پڑھیں

اٹھتے ہیں حجاب آخر سوالات کے جوابات پر مبنی حکیمانہ گفتگو سے انتخاب؎۱ – بتول اگست ۲۰۲۴

صدقات کا نظام
میرے خیال میں صدقات ایک فرد کی نہیں ، بلکہ اس ملک کی بلا ٹال دیں گے ۔ صدقات واحد نظام ہے ، جو سود کو ختم کرتا ہے ۔ قرآن و حدیث کے مطابق صدقات کے نظام کے نفاذ کے بغیر دنیا کی کوئی طاقت سود کو ختم نہیں کر سکتی ۔ پرور دگار عالم نے فرمایایمحق اللہ الربو ویربی الصدقاتاللہ سود کو گھٹاتااور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ جس ملک ، معاشرے اور پورے نظام میں صدقات کی کوئی سر کاری سطح نہ ہو ، وہاں سود کیسے ختم ہو سکتا ہے ؟
خطبہ حجۃ الوداع کا دن ہے ۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ آج کے دن میں تمام سود باطل قرار دیتا ہوں ۔ سب سے پہلے میں اپے چچا عباس بن عبد المطلب کا سود ختم کرتا ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ کے دن تک عباسؓ سود لے رہے تھے۔ان کو پہلے کیوں نہیں منع کیا گیا ؟۲۲ برس قرآن اترتا رہا اور عباسؓ سود لیتے رہے۔ کیا اللہ کے رسولؐ شروع سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ سود حرام ہے ، جبکہ دو آیات پہلے اتر چکی تھیں ۔آخری دو آیات میں سے ایک آیت یہ تھی کہ جو یہ…

مزید پڑھیں

روحِ آزادی – بتول اگست ۲۰۲۴

اک خواب جو شاعر نے دیکھا،تعبیرکے سچے رستے کا
اک رازکہ اس میں پنہاں تھا تعمیر کے بستے نقشے کا
ایمان کے عزم و ہمت نے کردار کی اعلیٰ طاقت نے
تعبیر کو اس کا روپ دیا،سرشارسی ایک صداقت نے
تصویر کا نقشہ خوب دیا افکار نہاں کی جرأت نے
بنیاد میں جس کی کلمہ تھا لاریب وہی یہ خطہ ہے
اس کلمے کا ہی صدقہ ہے اب جو بھی روشن رستہ ہے
قربان کیے تھے جان و تن تب جا کے ہؤاآزاد وطن
ہر آن لٹاتے لعل و گہر کیا شعر و سخن کیا فکروفن
سب رکھتے تھے بس ایک لگن کیا پیر و جواں کیا مردوزن
تاریخِ وطن یہ کہتی ہے آسان نہ تھا کچھ اتنا بھی
اک لمبے سفر پہ نکلے تھے سامان نہ تھا کچھ اتنا بھی
اک عشق میں تھا بس مر جانا اک آتش میں تھا جل جا نا
یہ کلمہ گویا دیپک تھا اور ہر اک تھا بس پروانہ
آزاد نگر کے جذبے سے کس کس نے کیا کیا وار دیا
آباد نگر کے صدقے میں سر نذر کیے گھر بار دیا
تب جا کے ملا تھا پاک وطن تھی ارضِ وطن ہر دل کی لگن
کچھ رنگ و زباں کے پرچم تھے لگتے جو اپنے ہمدم تھے
کچھ رزق کے موقع کم کم تھے دشمن کے…

مزید پڑھیں

گلیاں بدل گئی ہیں کہ وہ گھر بدل گئے – بتول اگست ۲۰۲۴

گلیاں بدل گئی ہیں کہ وہ گھر بدل گئے
بینائی بجھ گئی ہے کہ منظر بدل گئے
آنسو بنے ہوئے تھے زمانے کی رونقیں
ہم کیا ہنسے کہ وقت کے تیور بدل گئے
پہلے سے اب کہاں وہ تراشے ہوئے بدن
آذر بدل گیا ہے کہ پتھر بدل گئے
مشکل پڑی تو وقت کی نظریں بدل گئیں
جتنے بھی دوست یارتھے یکسر بدل گئے
قاتل کہاں وہ اب نہ ہیں پہلے سے اب طبیب
نشتر بدل گیا ہے کہ خنجر بدل گئے
ہے کاروانِ شعر و سخن آج بھی رواں
اتنا ضرور ہے کہ سخنور بدل گئے
دار و رسن کی رونقیں سب ماند پڑ گئیں
جو سارے حق پرست تھے خودسر، بدل گئے
وہ اپنی انجمن میں کبھی بزمِ غیر میں
آکر بدل گئے کبھی جاکر بدل گئے
کوئی بدل سکا نہ جنھیں آج تک کبھی
حیران ہوں کہ آپ سے کیوں کر بدل گئے
ظاہر سے جن کے پیار بہت تھا حبیبؔ کو
ہائے وہ اپنے آپ کا اندر بدل گئے

نعت

آج آقا کی بات ہو جائے
میرے سرور کی نعت ہو جائے

غم سناؤں میں جا کے آقا کو
غم سے میری نجات ہو جائے

پڑھ رہی ہوں درود آقا پر
اب اندھیروں کو مات ہو جائے

دن کٹے آپ کی ثنا لکھتے
اور یوں ہی یہ رات ہو جائے

ٹھہری قسمت یہ چل پڑے میری
مہرباں ان کی ذات…

مزید پڑھیں

بجھ گیا ہے علم کا اک اور رخشندہ چراغ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی یاد میں جو 25 جنوری 2024 کو داغِ مارفت دے گئے – بتول اگست ۲۰۲۴

بےثبات اس دہر میں بادِ فنا کے زور سے
درد سے معمور دل سینہ ہے غم سے داغ داغ
آسمانِ علم و دانش کا جہانِ بے کراں
حکمت مشرق ، فنافی الشاعرِ مشرق بھی تھا
کر کے دکھلائی ہے اُس نے فکر کی تزئین بھی
دُود مانِ ہاشمی کا گوہر تابندہ تھا
راہرو بھی تھا اگر وہ ، صاحبِ منزل بھی تھا
صاحبِ علم و ہنر تھا ، واقفِ حالات بھی
تھا یقیناً بے مثیل استاد بھی ، نقاد بھی
تھا قلم میں تیز تر، آہستہ خُو گفتار میں
رہنما بھی ، راز داں بھی تھا ، مراہمدم بھی تھا
دوستی اس سے رہی آدھی صدی سے مستزاد
جب سے میرا فکر اس کے فکر سے وابستہ ہے
دل ہے اس کی مغفرت کو میرا، پیوستِ دُعا
بجھ رہے ہیں رفتہ رفتہ علم کے روشن دیے
بجھ گیا ہے علم کا اک اور درخشندہ چراغ
حضرتِ اقبال کے فکر و نظر کا ترجمان
صاحب فکر و بصیرت ، فکر میں صادق بھی تھا
اصل کا وہ ہاشمی یعنی رفیع الدین بھی
لمحہ لمحہ دانشِ اقبال سے خورسندہ تھا
ایک بحرِ علم، دانائے کفِ ساحل بھی تھا
بے مثال و بے بدل ہیں اس کی تحقیقات بھی
اورتحقیق ادب کا اک جہاں آباد بھی
آنکھ میں آشفتگی ،…

مزید پڑھیں

صلہِ خونِ شہیداں آزاد وطن کی خاطر ہجرت کرنے والے ایک قریبی گھرانے کی داستان – بتول اگست ۲۰۲۴

ہمارا گھر ضلع ہشیار پورمیں برنالہ گائوں میں تھا ۔ یہ گائوں تحصیل دسوعہ میںتھا ۔ وہاں کئی گائوں کے ناموں کے ساتھ برنالہ کا لفظ لگا ہوتا تھا۔برنالہ کا مطلب ہے نالہ کے کنارے تو نالہ ( پانی کی ندی) کے ساتھ ساتھ واقع کئی گائوں کا نام برنالہ تھا ۔
ہمارے گائوں میں ایک بڑا تالاب تھا جو بارش کے پانی سے بھر ا رہتا تھا ۔ اُس سے مویشی پانی پیا کرتے تھے ۔ ہم اس میں نہا یا بھی کرتے تھے ۔ گائوں کی عورتیں وہاں کپڑے دھونے بھی آیا کرتی تھیں ۔ میری عمر اُس وقت کوئی دس سال تھی لیکن مجھے سب کچھ اچھی طرح یاد ہے ۔ گائوں میں ہندو، سکھ ، مسلمان سب آپس میں پیار محبت اور سلوک کے ساتھ رہتے تھے ۔ آپس میں اچھی دوستیاں اور اچھے تعلقات تھے ۔ ہم اکثر ہندوئوں کے تہوار دیوالی اور دسہرہ دیکھنے جایا کرتے تھے اور ہندو ہماری عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے ۔
اتنا اچھا ماحول تھا کہ گھروں کے دروازے بند نہیں کیے جاتے تھے اور رات کو ہم مکانوں کی چھتوں پربڑے مزے سے سوجایا کرتے تھے ۔ دکانیں زیادہ ترہندوئوں کی تھیں اورمسلمان اکثرکھیتی باڑی کرتے تھے ۔…

مزید پڑھیں

تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب – بتول اگست ۲۰۲۴

یادیں کیا ہوتی ہیں ؟کوئی ایسی بات ,کوئی ایسا واقعہ، کوئی ایسی شخصیت جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ہمارے ذہن کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لیے مقید ہو جاتے ہیں وہ یادیں بن جاتی ہیں اور اگر یہ والدین کی ذات سے جڑی ہوں تو زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ بن جاتی ہیں ۔ میرے والد قمرالحسن قمر تین دہائیوں تک قوم کے بچوں میں علم کی روشنی بانٹتے رہے وہ اسکول کے لیے سخت گیر پرنسپل تھے ، اصولوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے مگر اپنے طالب علموں کے لیے ایک شفیق اور مہربان استاد کے روپ میں سائبان تصور کیے جاتے تھے۔آج ان کے ہاتھوں کے پڑھے ہوئے بچے مختلف شعبہ زندگی میں کار ہائےنمایاں انجام دے رہے ہیں ۔
میرے ذہن کے پردوں میں بھی اپنے والد سے متعلق یادیں محفوظ ہیں لیکن جب بھی انھیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو آنکھوں سے جاری آنسو مجھے کچھ لکھنے نہیں دیتے ،نظریں دھندلا جاتی ہیں الفاظ گڈمڈ ہو جاتے ہیں اور خیالات کی ایسی آندھی چلتی ہے جو مجھے میرے بچپن میں لا کھڑا کرتی ہے جب میں ایک چھ سال کی کمزور سی بچی تھی۔
مجھے یاد ہے اس وقت…

مزید پڑھیں

وہ دودن! – بتول اگست ۲۰۲۴

گاہے بگاہے تذکیر و محاسبہ کی ہر فرد کو ضرورت ہوتی ہے۔27_28, مئی 2024 منصورہ آ ڈیٹوریم میں فیصل آ باد اور لاہور کے ارکان کے لیے دو روزہ تربیتی نشست کا اہتمام تھا۔تربیت گاہیں تو اس سے پہلے بھی ہوتی رہیں مگر اس مرتبہ انداز کچھ جدا تھا۔ کافی دنوں سے ایسی ہی اجتماعیت کی کمی محسوس ہورہی تھی جہاں لگے بندھے انداز میں لیکچرز کی بجائے سامعین کے احساسات ،خیالات، معمولات اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دیے گئے ہوں۔مقررین نے نہایت جاں فشانی سے موضوعات تیار کر رکھے تھے اور واقعتاً ایک لمحے کے لیے بھی بوریت کا احساس نہ ہؤابلکہ ایسے لگ رہا تھا کہ اگر دو کی بجائے تین دن بھی تربیت گاہ ہوتی تو انہماک اسی طرح برقرار رہتا۔
ہال میں بیٹھا ہر فرد گہری سوچ میں ڈوبا اپنے آپ کو کھوج رہا تھا اور اپنی کمزوری یا غفلت کو ٹٹول رہا تھا۔جیسے رمضان کا ایک مہینہ سال بھر کے لیے ٹریننگ کورس ہوتا ہے تو یہ دو دن ہمارے لیے روحانی خوراک کا توشہ تھے۔
پہلا دن
پروگرام کا آغاز ساڑھے دس بجے ہونا تھا۔لیکن پچھلے ایک دو ہفتے سے ہمارے گروپس میں بار بار ریمائنڈر کے میسجز آتے رہے جس کی وجہ سے…

مزید پڑھیں

زندگی کی قدر و قیمت زندگی کا مقصد، وقت کی تنظیم،اہمیت،ضرورت اور طریقہ کار – بتول اگست ۲۰۲۴

اللہ رب العزت نے ہمیں جتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ زندگی ایک مقصد حاصل کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ زندگی کواللہ رب العزت نے بہت ہی مختصر رکھا ہے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ یہ مختصر سی زندگی تم اپنی جنت اور آخرت بنانے میں گزادو۔
اس مقصد سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس مختصر زندگی میں جتنا زیادہ وقت کی قدر کی جائے گی اتنا ہی زیادہ زندگی کا مقصد حاصل کرنا آسان ہوگا اور جتنا وقت کی نا قدری کی جائے گی گے مثلاً فضول اور بے مقصد کاموں میں وقت لگایا جائے گا تو ہم زندگی کے مقصد سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے۔ لغویات، لایعنی اور فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کریں گے تو اس مقصد سے ہم دور ہوتے جائیں گے۔ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کوئی چیز اگر اپنے مقصد سے ہٹ کر استعمال کی جاتی ہے اس میں خرابیاں بڑھتی جاتی ہیں مثلا جوتوں کا مقصد ان کو پہننا ہے تاکہ پیر محفوظ رہیں اب اگر کوئی جوتوں کو جیب میں رکھے یا شاپر میں ڈال کر پیادہ گھومے پھرے تو اس کے پیر زخمی ہوجائیں اور…

مزید پڑھیں