غزل – مارچ ۲۰۲۱
ہجر سے جاں بہ لب ہیں دیوانے آہ کرتے ہی کب ہیں دیوانے بے گناہی بھی جرم گنتے ہیں اِس کچہری میں سب ہیں دیوانے زندگی کیا جواز رکھتی ہے ہم تو بس بے سبب ہیں دیوانے پتھروں سے جواب آتا ہے کیا پکاریں کہ جب ہیں دیوانے منہ پہ رکھتے ہیں من کی باتیں بھی کس قدر بے ادب ہیں دیوانے ہم کلامی جنون کیسا ہے اتنے بدنام کب ہیں دیوانے تیری آمد ہے کیا چھپائیں اب ہم نہیں اب، تو کب ہیں دیوانے (اسامہ ضیاء بسمل) اپنے پیروںکو سمیٹو سبھی سر پر رکھ دو حکمِ آقا ہے، غلامو، مرے در پر رکھ دو توڑ کر تم جو ستاروں کو فلک سے، اچھا لے ہی آئے تو کسی اور کے گھر پر رکھ دو اف یہ دنیا ہے زمانہ بھی ہے گھر والے بھی سو سبھی مجھ سے کیے عہد اگر پر رکھ دو ہم بھی دنیا کا زمانے