فرحی نعیم

قسمت – فرحی نعیم

  یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں

مزید پڑھیں

فاصلے اور فیصلے – بتول جون ۲۰۲۲

سوتے سوتے اچانک ہی ان کی آنکھ کھلی تھی ۔کمرے میں اندھیرا تھا ۔ گھڑی کی سوئی کے ساتھ ان کے ذہن میں بھی خیالات کی یلغار آنی شروع ہوئی تھی ۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئیں تھیں ۔ جاتی سردیوں کے دن تھے ۔ موسم میں تبدیلی آ رہی تھی ۔ کسی وقت ہلکی سی خنکی محسوس ہوتی ۔ انہوں نے لیٹے ہوئے چھوٹی زینیہ سے چادر ڈلوائی تھی ۔ انہوں نے آہستہ سے چادر اپنے اوپر سے سرکائی ۔ باہر کمرے سے اب بھی باتوں کی دھیرے دھیرے آوازیں آ رہی تھیں ۔ کھلے دروازے سے روشنی ایک لکیر کی صورت میں کمرے کے اندر تک آ رہی تھی۔ انہوں نے چند لمحے اس پیلی لکیر کو دیکھا ۔ زندگی بھی اسی طرح گھپ اندھیرے کی مانند ہو چکی تھی ۔ ارشد صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد زندگی بھی محدود ہو گئی تھی۔ بس یہ اولاد

مزید پڑھیں

جو بھی جینے کے سلسلے کیے تھے – بتول جنوری ۲۰۲۳

شادی کا گھر تھا لیکن مجال ہے جو کسی کام کی بھی کوئی ’’ کل ‘‘ سیدھی ہوئی ہو۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا ہر کام جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے اتنے ہی اپنے مخالف سمت کی طرف سفرکررہا ہو۔شادی میں صرف ایک ماہ رہ گیا تھا دلہن سمیت کسی کے بھی کپڑے تیار نہ تھے ۔ ناصر میاں کے کمرے میں روغن ہوتا تھا ۔ جس کے لیے ابھی تک کسی رنگ ساز سے بات نہیں کی گئی تھی ۔غسل خانے کے نل ٹپ رہے تھے اور پلمبر کے بہانے ختم نہ ہو رہے تھے ۔ ناصر میاں کو اپنے کمرے میں ایک ٹیوب لائٹ بھی لگانا تھا جس کے لیے تا حال بجلی والے کی مدد درکار تھی۔ ’’ ارے میں کہتی ہوں ، صراف کے پاس جانا ہے ۔ منہ دکھائی کی انگوٹھی لینی ہے ۔ پھر وہ زرقون کا سیٹ بھی اجلانے کے لیے دینا

مزید پڑھیں

اِک تیرے آنے سے پہلے – بتول مئی ۲۰۲۲

تینوں بچیوںکو سکول بھیج کر اب جمیلہ گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔ میلے کپڑے سمیٹ کر اس نے ٹب میں ڈالے اور سرف ڈال کر بھگونے رکھ دیئے اور کھانا پکانے کی تیاری کرنے لگی۔ سبزی وہ گلی میں آنے والے سبزی والے سے پہلے ہی خرید چکی تھی۔ اس نے چھری اور ٹوکری لی اور کچن کے ساتھ برآمدے میں بیٹھ کر سبزی کاٹنے لگی۔ جمیلہ کے ہاتھ تیزی تیز چل رہے تھے۔ ہنڈیا چڑھا کر ابھی برتن دھونے تھے اور پھر جھاڑو بھی لگانی تھی اور وہ چاہتی تھی یہ سارے کام وہ چھوٹو کے اٹھنے سے پہلے پہلے کر لے جوکہ ناممکن تھا۔ لیکن سوچنے میں کوئی حرج تو نہیں تھا۔ ہاتھ اس کے سبزی بنا رہے تھے اور دماغ ڈھیروں کاموں میں الجھا ہؤا تھا۔ آج تو کپڑے بھی زیادہ تھے۔ کل کپڑے دھونے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ لہٰذا آج اس نے پہلے

مزید پڑھیں

اوکھی – بتول جون ۲۰۲۳

مددگار نمبر کے لیے تحریر لکھنے بیٹھی تو سوچ کے پنچھی کو آزاد چھوڑ دیا، اس نے اڑا ن بھری اور کئی برس پیچھے تیزی سے مسافت طے کرتا چلا گیا اور پھر اچانک ٹھٹک کر ایک ڈال پر بیٹھ گیا، اور میری یادداشت نے ایک بھولی بسری کہانی یاد دلائی۔ یہ ملازمین ، خدمت گار ، مددگار …کیسی کیسی کہانیاں ان کی زندگیوں سے جڑی ہیں، جنھیں سوچ کر ہی دل اداس ہو جائے ۔ ایسی ہی ایک کہانی میرے ذہن کے کسی کونے میں نقش ہے۔ جب یادوں کی پٹاری کھلی تو ایک کے بعد ایک پرت ہٹتی چلی گئی ۔ ٭ وہ ہماری کام والی باجی کی منجھلی بیٹی تھی، کم عمر، خوش مزاج، شوقین اور زندگی سے بھر پور ، کبھی کبھی ماں کے ساتھ آجاتی ، ماں کا ہاتھ بٹا دیتی، ہنستی مسکراتی آتی اور کام کرکے چلی جاتی ۔ وقت کے ساتھ عمر بڑھی،

مزید پڑھیں

ایک شام مدیرہ بتول کے ساتھ- بتول جولائی ۲۰۲۱

سال نو کا آغاز اس لحاظ سے خوشگوار رہا کہ حریم ادب کراچی کی فعال ٹیم نے اپنی قلم کار بہنوں اور پڑھنے لکھنے کی شیدائی خواتین کے لیے حسبِ روایت ، جاتے جاڑوں کی ایک دلفریب سہ پہر کو الخدمت کے نرم گرم خوبصورت گوشے میں مدیرہ بتول محترمہ صائمہ اسما کے ساتھ ایک محفل دوستاں سجالی ، جہاں ثمرین احمد نے ان سے بہت سی باتیں کیں ، ماہنامے کے بارے میں ، کتب بینی اور اشاعت کے بارے میں، اچھی تحریر کے لوازم کے بارے میں۔ حاضرین جن میں کراچی کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئی لکھاری خواتین اور کئی نو آموز قلم کار بھی موجود تھیں، دلچسپی سے سنتے رہے اور محظوظ ہوتے رہے۔ ماہنامہ بتول کے اغراض و مقاصد سے حاضرین محفل کو روشناس کرواتے ہوئے صائمہ اسما صاحبہ نے بتایا کہ ادبی رسالہ چمن بتول اس وقت ملک کا واحد رسالہ ہے جوبلاتعطل 1957سے

مزید پڑھیں

سوال-بتول جنوری ۲۰۲۱

آخر وہی ہؤا نا جس کا ڈر تھا ۔ سندس کے منہ پھٹ ہونے میں اگرچہ عنبر کو پہلے بھی کبھی کوئی شبہ نہ تھا لیکن آج تواس نے حد ہی کر دی تھی ۔ آپا کیسے مسکرامسکراکر سب سے باتیں کر رہی تھیں ۔ اپنے گھر اور میاں کی تعریف میں رطب اللسان تھیں ،لیکن اس سندس کی بچی نے اپنی قینچی کی طرح چلتی زبان کو ہمیشہ کی طرح قابونہ کیا اور اپنے منہ پھٹ ہونے کا ثبوت ایک دفعہ پھر دہرایا ۔ آپا کی شکل، اُف! آپا کی شکل ، اس کی بات سن کر شرمندگی سے کیسے سرخ ہو گئی تھی ۔عنبر کا نازک دل تو دھک ہی سے رہ گیا تھا ۔ اگر وہ بر وقت بات کو نہ سنبھالتی تو آپا تو پھر شاید اس چوکھٹ پر قدم بھی نہ رکھتیں اور پھر وہ میاں اور باقی گھر والوں کے سامنے بے قصور ہوتے

مزید پڑھیں