صابن کی پرچ – بتول جون ۲۰۲۳
فہمیدہ غسل خانے سے نہا کر نکلی تو اس کے ہاتھ میں ایک چینی کی پرچ تھی جس میں لائف بوائے کی ایک ٹکیہ تھی۔
فہمیدہ غسل خانے سے نہا کر نکلی تو اس کے ہاتھ میں ایک چینی کی پرچ تھی جس میں لائف بوائے کی ایک ٹکیہ تھی۔
’’ آج تو بہت دیر ہوگئی ہے ۔‘‘ بلال بالوںمیں کریم لگا کر کنگھاکر رہا تھا ۔ پھر اپنے لیپ ٹاپ کو بیگ میں بند
عفت نے پڑھنا شروع کیا۔لکھتا تھا۔ ’’زویا چندے آفتاب و چندے ماہتاب تو ہرگز نہیںپر دلکش اور سلیقے طریقے والی ضرور ہے۔والدین بھی نجیب الطرفین
کئی دنوں سے سب گھر والے نوٹ کر رہے تھے کہ مجیداں کام میں سست ہو گئی ہے ۔ایک بات دو تین مرتبہ کہنا پڑتی
نہ جانے کس مخصوص غذائی جز کی کمی تھی کہ ’ روشنی‘ نام ہونے کےباوجود بھی وہ سیاہ رنگت کی تھی۔ بنگلہ نمبر بی تینتیس
وہ کوڑے کا ڈھیر تھا جس پہ وہ سب دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے۔ سب کی شکلیں بگڑی ہوئیں جن پہ مردنی چھائی تھی۔بچوں
زرَک کئی دنوں سے پوَن سے تفتیش کرنے نہیں آیا۔وہ کسی انسان کی شکل کو ترس جاتی ہے۔اسے یاد آتا ہے بی بی کے گھر
میں دھوپ میں بیٹھی بال خشک کر رہی تھی جب بھیا اسے لے کر آئے۔ اس کے ہاتھ، منہ، ٹانگیں اس بری طرح سے پھٹ
شادی کے بعد جب الگ گھر میں رہنا پڑا تو محسوس ہؤا کہ بڑے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ گیٹ
سیاہ رنگت ، ماتھے پر بکھرے سیاہ بال ، آنکھوں پر عینک ، بھاری بھرکم ، صاف ستھرے کپڑے پہنے ،یا تو باورچی خانے میں
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو
Designed and Developed by Pixelpk