ناموسِ وطن
(1960 میں کہی ہوئی نظم)
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل
جو گلشن خون سے سنیچا ہے
ہاتھوں سے خزاں کے لُٹ جائے
خود غرض بڑھیں اخلاص گھٹے
بھائی سے بھائی لڑ جائے
کیا تجھ کو گوارا ہے سب کچھ ؟
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل
اُٹھ دیکھ کہ تیرے بچوں میں
کچھ پنجابی بنگالی ہیں
کچھ سندھی کچھ سرحدی ہیں
کچھ پیش بھگت کچھ گاندھی ہیں
آذر تو ہیں ابراہیم نہیں
کیا تجھ کو گوارا ہے سب کچھ ؟
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموس وطن کروٹ تو بدل
یہ تیری آنکھ کے تارے ہیں
یہ تیری گود کے پالے ہیں
تو جن کو کہتی رہتی تھی
نادان ہیں بھولے بھالے ہیں
اُٹھ دیکھ کہ تیرے لالوں نے
ان تیری آنکھ کے تاروں نے
ہاں تیری گود کے پالوں نے
ان تیرے بھولے بھالوں نے
کیا ظلم و ستم ڈھا رکھے ہیں
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل
ممکن ہے کہ ان لوگوں میں ابھی
اللہ کا بندہ ہو کوئی!
ان چلتی پھرتی لاشوں میں
شاید ہے کہ زندہ ہو کوئی
اُمید کا دامن تھام کے اُٹھ
اسلام کا پرچم تھام کے اُٹھ
ان ٹیڑھی ترچھی راہوں سے
واپس تو بلا ، آواز تو دے
شاید کہ تری آوازوں سے
یہ لوگ پلٹ کر آجائیں
اے مادرِ ملت جاگ ذرا
ناموسِ وطن کروٹ تو بدل