لگے ہیں زخم جو دل پردکھائیں گے بھلا کس کو
نہیں ہے کوئی بھی اپنا
کہ جس کو دکھ بتا سکتے
بتاتے سنگ باری کرنے والوں کی یہ دنیا ہے
بڑا نازک ہے دل
جیسے بنا ہے کانچ کا شاید
ذرا سی ٹھیس لگتی ہے
تو چکنا چور ہوتا ہے
لہو آنکھوں سے بہتا ہے
برے ہیں ہم غلط ہیں ہم
زمانہ ہم سے کہتا ہے
مگر اے کاش آتا ہوہمیں بھی گُر ستانے کا
انھیں بھی آزمانے کا
دکھاتے ہم بھی آئینہ
مگر خاموش رہنا ہے
ہمیں کچھ بھی نہ کہنا ہے
ملے ہیں زخم جو ان سے
ہمیں چپ چاپ سہنےہیں
دکھوں کو جب زباں مل جائے تو
اچھا نہیں ہوتا
بڑی مشکل جو بنتے ہیں گھروندے
ٹوٹ جاتے ہیں
تو زخموں کو چھپا لیناہمیشہ
سنگ باری جب کرے دنیا
تو سہہ جانا
سنبھل کرمسکرا دینا
سمجھ لینا
دکھوں کو سننے والے
چننے والے راہ کے کانٹے
نہیں باقی رہے اب!
رستہ نہ بھٹک جانا
رستہ نہ بھٹک جانا
آنکھوں کو کھلا رکھنا
تنہا نہ چلو ہمدم
ہمراہی سدا رکھنا
شیطان صفَت ہردم
تاک میں ہوتے ہیں
دھوکے میں نہ آجانا
تم یادِ خدا رکھنا
بچ بچ کےچلو راہی
غفلت میں نہ پڑ جانا
رستے پہ نظر رکھنا
خوابوں میں کبھی آؤ
یہ دل کی تمنا ہے
کیا خوب تمنا ہے
ملنے کی دعا رکھنا
بس یادِ خدا رکھنا
ایماں کا تقاضا ہے
آنکھوں سے نہاں بےشک
پر دل میں بسا رکھنا
(اختر نظامی)
حیدر آبادی چٹکلے
ایک عزیزہ جب آتیں امی کا مذاق اڑاتی تھیں کہ جب آپ لوگوں کے حلق سے قاف کی آواز نکلتی نہیں تو قاف سے نام کیوں رکھتےہیں۔ ایک دن ہم سے رہا نہ گیا تو ہم نے ان سے کہا’آپ ذرا اپنی بیٹی کو پکاریں؟‘ پہلے تو وہ تھوڑا گڑبڑائیں، پھر کچھ خفگی دکھانے کی کوشش کی لیکن آخر کار ہماری معصومانہ فرمائش پوری کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو آواز لگائی….امارہ…. ہم نے کہا نہ نہ نہ…. امارہ نہ کہیں اس طرح تو وہ نفس امارہ ہو جائے گی…. معنی بدل جائیں گے …. ع کا صحیح مخرج ادا کریں …. کہیے’عمارہ‘ وہ جلال میں آگئیں اور بولیں۔کیوں جی ہم کیوں ع کی آواز حلق سے نکالیں ہم اردو میں بات کر رہے ہیں اردو میں تو عین کی آواز ایسے ہی ہوتی ہے۔ دل تو چاہ رہا تھاکہ پوچھیں جب آپ کے حلق سے عین کی آواز نہیں نکلتی تو عین سے نام کیوں رکھتے ہیں؟ لیکن امی ہمیں گھور رہی تھیں تو چپ ہونا پڑا۔
آمنہ رمیصا زاہدی
غزل
چپ رہنا ٹک دیکھنا کچھ نہ کہنا اچھا لگتا ہے
دل ہی دل میں کڑھنا رونا ہنسنا اچھا لگتا ہے
کھوج میں جب دو چار سُکھوں کے دنیا گھوم کے تھک جائیں
دکھ گھر کی دہلیز پہ مِل کے سہنا اچھا لگتا ہے
کھلی فضا میں اڑتے پنچھی بہکی بہکی مست ہوا
پنکھ بنا ان سب کے سنگ سنگ اڑنا اچھا لگتا ہے
جگنو تتلی چاند ستارے اڑتے بادل ہنستی دھوپ
دل آنگن میں انہیں بلا کے کھیلنا اچھا لگتا ہے
ساری عمر کی دانائی کا بوجھ اتار کے کندھوں سے
ہر بچے کی نادانی سے بہلنا اچھا لگتا ہے
بغض وحسد کی آگ میں جلتی دنیا جب برسائے آگ
صبر کی ٹھنڈی موجوں کے سنگ بہنا اچھا لگتا ہے
سارے کام ادھورے چھوڑ کے نرم سنہری دھوپوں میں
بیتے وقت کی اک اک تہہ کو کھولنا اچھا لگتا ہے
شیلف پہ رکھی تصویریں جب دھیرے دھیرے بات کریں
کوئی پرانا پیاروں کا خط پڑھنا اچھا لگتا ہے
دیکھ کے اپنے بچوں کو خود اپنے میں مصروف بہت
پانی کیاری کے پھولوں کو دینا اچھا لگتا ہے