۲۰۲۴ بتول فروریبنت الاسلام کے ناول ’’سہارا ‘‘ کا فنی و فکری جائزہ ...

بنت الاسلام کے ناول ’’سہارا ‘‘ کا فنی و فکری جائزہ – عنیزہ اعزاز

ناول انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مسلسل قصہ۔فن کی رو سے ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص نقطۂ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی اورواقعی عکاسی کی گئی ہو نا۔ول زندگی کی تصویر بھی ہے اور تفسیربھی اورسب سے بڑھ کر زندگی کی تنقید ہے ۔ ناول نگار گویا زندگی کے چہرے سے نقاب اٹھاتا ہے ۔ ناول میں حکیمانہ ادبی اظہار بھی ہے اور تخیل کی بلند پروازی بھی۔ حقائق بھی ہیں اور فلسفہ بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار و روایت کی جھلک بھی ہے اور خیرو شر کی آویزش بھی ۔ مگر یہ سب کچھ اتنے فنی و فکری انداز میں رچائو کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا ذاتی وجود بظاہر معدوم ہو جاتا ہے اورصرف ناول باقی رہ جاتا ہے ۔ گالزوردی ناول نگار کو ایک ایسا مصلح قرار دیتا ہے جو بدی کے کوچے میں چراغِ راہ جلا کر خرابیوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔
اس تناظر میں جب ہم بنت الاسلام کے ناول ’’ سہارا ‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں بہترین ناول کے تمام اجزا نظر آتے ہیں۔
کسی بھی ناول میںپلاٹ ، کردار مکالمے ، منظر نگاری نصب العین، کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ہر قصہ چند واقعات کے مجموعے سے تیار ہوتا ہے ان کی تربیت و تنظیم کا نام پلاٹ ہے ۔ بنت الاسلام کے ناول ’’سہارا ‘‘ میں بھی واقعات کی ترتیب میں ایک ربط و تسلسل پایا جاتا ہے آغاز سے انجام تک ناول کے واقعات میں کہیں خلل نظر نہیںآتا ۔ناول کو اپنے سفر میں مختلف منازل سے گزرنا پڑتا ہے ، متعدد واقعات پر اس میں مختلف تحریکات کے زیرِ اثر واقعاتی تنوع پیدا کیا جاتا ہے جس سے قاری کے زمین میں سکون ، اضطراب، تجسس، حیرت ، مسرت و غم وغیرہ کے جذبات و احساسات پیدا ہوتے ہیں اور وہ آئندہ واقعات معلوم کرنے کی فکر میں برابر لگا رہتا ہے ۔ ’’سہارا‘‘ کے پلاٹ میں یہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں ۔مصنفہ پلاٹ کے تمام واقعات میں ایک توازن قائم رکھنے میںکامیاب رہی ہیں ۔
ناول اپنے کرداروں کی وجہ سے آگے بڑھتا ہے واقعات انسانی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں ناولوں میں کہیں کردار پلاٹ کے تابع ہوتے ہیںاور کہیں کرداروں کی حرکات و سکنات سے سلسلہ واقعات جنم لیتا چلا جاتا ہے ۔ ناول کے کرداروں کے پیچھے اس کے ارادے و خواہشات ہوتی ہیں ۔ ناول ’’ سہارا ‘‘ کے کردار جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں یہ کردار معاشرے کا حصہ محسوس ہوتے ہیں یہ کردار مٹی کے مادھو نہیں بلکہ ارادہ وعمل کے پیکر نظر آتے ہیں۔ قاری بھی ان کرداروں سے دلچسپی اور اپنائیت کا رشتہ قائم کر لیتا ہے ۔ کرداروں کی تخلیق کسی مخصوص مقصد کے پیش نظر عمل میں آتی ہے ۔ زندگی انسان میں افکار و خیالات ومیلانات کی تبدیلیاں پیدا کرتی رہتی ہیں ۔ یہ تغیرات ناول کے کرداروں میں نظر آتے ہیں۔
بنت الاسلام کے ناول ’’ سہارا‘‘ میںبھی بہت سے کردار نظر آتے ہیںمرکزی کردار منیرہ کا ہے اس کے علاوہ منیرہ کا شوہر ماجد منیرہ کے والد اخلاق صاحب، والدہ صالحہ بیگم ، منیرہ کی بہن ارجمند ، شائستہ ، اصغری خانم ، زبیدہ ممانی عابدہ ، زرینہ طاہرہ اور بے شمار ضمنی کردار بھی ناول میں نظر آتے ہیں۔
منیرہ ایک مذہبی اور مشرقی لڑکی کے کردار میں سب سے نمایاں ہے وہ ناول کی ہیروئن ہے ۔ منیرہ بڑی با شعور اور دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والی لڑکی ہے اس کی جگہ کوئی بے ضمیر لڑکی ہوتی تو ماجد کی دن دگنی رات چگنی ترقی دیکھ کرپھولے نہ سماتی مگروالدین نے اس کو حلال اور حرام کی تمیز سکھائی تھی اس لیے وہ ماجد کی جھوٹی شان جو اس نے حرام پیسہ بنا کر کمائی تھی، دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے۔ منیرہ ایک مشرقی لڑکی سب کچھ صبر سے برداشت کر لیتی ہے تاکہ اس کے والدین دکھی نہ ہوں ۔ منیرہ ایک وفا شعار بیوی کی طرح ماجد کے لیے دعا کرتی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دے۔ ایک اچھی بہو ہونے کے ناطے اس کا سسرال سے رویہ بہت اچھا ہوتا ہے ۔اس میں سمجھ بوجھ صبر عقل اوردین کا علم کوٹ کوٹ کر بھرا ہؤا ہے ،’’سہارا‘‘ میں بنت الاسلام نے منیرہ کے روپ میں ایک مومنہ کا کردارپیش کیا ہے اپنے گھر اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے کتنے صبر ، گہری حکمت اور عمیق جذبہ کی ضرورت ہوتی ہے بعض کتابوں کے آخر میں نصیحت ملتی ہے بعض کے آغاز میں، لیکن ’’ سہارا‘‘ اپنی طرز کا ایسا ناول ہے جس میں ہر صفحے میںرہنمائی موجود ہے ۔
ماجد کے جیل جانے کے بعد منیرہ کے لیے بڑی آزمائش کا وقت تھا ۔ ایسے حالات میں وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی ۔ بلکہ بڑی بہادری اور حوصلہ سے حالات کا سامنا کرتی ہے۔مصنفہ کے ناول کا یہ مرکزی کردار حرام سے نفرت کرنا ہے جب حلال رزق ملتا ہے جو اگرچہ تھوڑا ہے مگر منیرہ کا دل مطمئن ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے دل میں خوف خدا ہے۔ جو بندہ اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے ڈر گیا وہی فلاح پا گیا ۔
منیرہ ، صبر و تحمل ، ایمان کامل، آخرت کا ڈر ، اصلاح معاشرہ کا جذبہ اپنے اندر سموئے ہوئے نظر آتی ہے۔ دوسرامرکزی کردار ’’ ماجد ‘‘ کا ہے جو کہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتاہے اس کے رشتے دار بہت امیر ہوتے ہیںوہ بھی سوچتاہے کہ وہ ان کے مقابل معاشرے میں کھڑا ہو سکے وہ جھوٹی شان و شوکت کے لیے حلال اورحرام کی تمیز بھول جاتا ہے اپنی جھوٹی انا اورشان کا پرچم بلند کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرتا گیا ۔ مگر اس کی بیوی دعا ، صبر وتحمل، وفا شعاری ، اس کی خدمت گزاری سے مسلسل کوشش کرتی رہی کہ شاید اس پتھر سے ایمان کاچشمہ نکل آئے جس میں وہ کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ جیل جانے کے بعد ماجد کے دل میںخوف خدا پیدا ہوجاتا ہے وہ تائب ہو جاتا ہے اللہ اس کے دل کو بھی اطمینان عطا کر دیتا ہے ۔اخلاق احمد اورصالحہ بیگم کے کردار نیکی کی علامت ہیں۔
ناول کی کہانی بیانیہ تکنیک سے آگے بڑھتی ہے کرداروں کی زبانی بڑے موثر انداز میںکہانی کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے۔
اصغری خانم کا کردار حقیقی سے زیادہ مثالی ہے جس کو اپنے خدا پر کامل یقین ہے وہ خدا کی رضا پر راضی رہنے والی عورت ہے اپنی مشکلات پر پریشان ہونے کی بجائے جب وہ منیرہ سے بات کرتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے وہ خدا پر کامل یقین رکھتی ہے ۔ ہر آنے والی مصیبت و مشکل میں اس کو مثبت پہلو نظر آتا ہے ۔
’’…اگرمالک نے میرا ایک بچہ لے لیا ہے تو پھر کیا ہے اس کی مہر بانی سے پانچ بچے موجودہیں ۔ اگر میرے ایک بچہ کو دمہ ہو گیا ہے تو دل شکستگی کی کوئی بات نہیں ہے میرے چار بچے اس بلا سے محفوظ ہیں۔ اگرمیری ایک بچی کی نظر کمزور ہے تو میں غم و الم کاشکار کیوں ہوںاس کی تمام صحت خدا کی مہر بانی سے بہت اچھی ہے میں جتنا بھی غور کرتی ہوںمجھے زندگی میںدکھ کی نسبت سکھ زیادہ نظر آتا ہے….‘‘
زبیدہ ممانی کا کردار اپنی بھولی بھالی عادات کی وجہ سے قاری کا پسندیدہ کردار ہے ماجد کی بھابھی عابدہ کا کردار نظر آتا ہےجس نے سسرال میں کڑا وقت دیکھا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں نوشابہ منیرہ کی بھابھی ہے جو روایتی بھابھی کےکردار پر پوری اترتی ہے۔
بنت الاسلام نے مکالمہ نگاری سے کرداروں کے شعورکی پہچان کروائی ہے کرداروں کی خصوصیات اوران کے رحجانات سے ہم مکالموں کے ذریعے واقف ہوتے ہیں ۔ کرداروں کی شخصیت کا انکشاف زیادہ تر مکالموں سے ہوتا ہے بنت الاسلام نے ناول میں ایسے مکالمات لکھے ہیں جو کہ بڑے بر جستگی کا رنگ لیے ہوئے ہیں یہ مکالمے ناول میں موقع محل کے مطابق ہیںان سے ناول کی دلکشی میں اضافہ ہؤا ہے انہوں نے مختصر مکالموں کے ذریعے سادہ انداز میں گہری باتیں بیان کی ہیں خاص طور پر جب ماجد پر ان کی کزن عشق و محبت کا جال پھینک رہی ہوتی ہے تو عابدہ بھی اس سے دو ٹوک بات کرتی ہیں ۔ ان کا انداز اتنا جاندار ہے کہ وہ چنگاری شعلہ بننے کی بجائے وہیںراکھ ہو جاتی ہے ۔
مکالمے دیکھیے:
’’آئوبھیا بیٹھو‘‘ عابدہ نے کہا ’’مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی‘‘ عابدہ کے الفاظ سن کر ممتاز باہر جانے لگی مگرعابدہ نے اسے بھی بلا لیا۔
… ماجد تو گھبرایا ممتاز کے چہرے پر بھی ہوائیاںاڑنے لگیں۔
’’مجھ سے بھلا آپ کو کیا بات کرنی ہے‘‘
’’ بہت مختصر سی بات بی بی‘‘ عابدہ نے کہا ۔
’’ یہ شخص جسے تم نے اپنی عنایات کا مرکز بنایا ہؤا ہے ایک بیوی کا خاوند اورتین بچوں کا باپ ہے تمہارے کسی کام کا نہیں ۔
ممتاز یکدم مشتعل ہو گئی… وہ مارے غصے کے اٹھ کھڑی ہوئی ’’میں ابھی اس گھر سے چلی جائوںگی اسی دم …‘‘
بنت الاسلام نے اپنے ناول ’’ سہارا‘‘ میں منظر کشی کے نمونے پیش کیے ان سے ماحول کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سارا منظر اپنی آنکھوںسے دیکھ رہا ہے منظر نگاری کے ذریعے ناول نگار کرداروں کی فطرت اور سیرت کے مختلف گوشے بے نقاب کرتا ہے ۔ بنت الاسلام جب کسی منظر کو بیان کرتی ہیں تو ان کی قوتِ مشاہدہ اورتخیل عروج پر ہوتا ہے۔
’’ رات کے بارہ بج رہے تھے لمبی لمبی گلیوں میںسناٹاچھایا ہؤ ا تھا ۔ چاند کی چودھویں تاریخ تھی آسمان پر بادل آنکھ مچولی کھیل رہے تھے … سفید بادل سر مئی بادل سارے آسمان پر دوڑتے پھر رہے تھے اور اس چتکبرے جال کے اندر چودھویں کا چاند جیسے ان کی گرفت سے بچنے کے لیے تیز تیز بھاگتا جا رہا تھا …‘‘
مصنفہ نے اپنے ناول میں سیدھی سادہ زبان و الفاظ کا انتخاب کیا ہے پورے ناول میںکہیں بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے جو قاری کو سمجھ نہ آ سکیں عربی ، فارسی ، انگریزی الفاظ کاانتخاب نہیں بلکہ زبان بیان کو سادہ اورسلیس رکھاہے ناول کی زبان ایسی ہے جو ہر قسم کے قاری کو سمجھ میں آسکے ۔ہر کردار جوزبان بول رہا ہے اس سے ماحول کی عکاسی بھی بھرپور طریقے سے ہو رہی ہے ۔
زبان روز مرہ کے مطابق ہے زبان و بیان خشک یا پھیکے پن کا رنگ لیے ہوئے نہیں ہے بلکہ الفاظ و بیان حالات و واقعات کے مطابق ہیں۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here