چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی سدرہ تھی، سدرہ بختیار احمد!
چوہدری بختیار احمد کے دو بیٹے اور چار بیٹیوں میں سب سے لاڈلی سب سے منفرد ، شکل اور عقل دونوں میں بے مثال!
چوہدری بختیار احمد خود نیک فطرت تھے اس لیے انہیں اس بات میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوئی تھی کہ اندرونی معاملات ہوں یا بیرونی وہ گھر میں اپنے اہل خانہ سے مشاورت ضرور کیا کرتے تھے اور یہ اتفاق تھا یا نہیں لیکن ہر مرتبہ سدرہ کا مشورہ سب سے منفرد ہوتا،جب اس پر عمل کیا جاتا تو ہمیشہ بہت اچھا نتیجہ سامنے آیا۔
اس کے بعد تو سدرہ بی بی گھر اور گھر سے باہر مشوروں کی پٹاری کے لیے مشہور ہو گئی۔اس کی ہنس مکھ اور ہر کسی سے اچھے لہجے میں بات کرنے کی وجہ سے ہر کوئی اپنی مشکلات کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے سدرہ کی سماعت کو استعمال کرنا موزوں سمجھتا۔کبھی بڑی امی کا فون آرہاہے کہ ان کی صاحبزادی عتیقہ صاحبہ آج کل مردم بیزار پائی جاتی ہیں۔کبھی ممانی نصرت یاد فرماتیں کہ ان کے منجھلے صاحبزادے مونس انگلیاں بہت چٹخانے لگ گئے ہیں ، سدرہ رانی کیا ہر بچہ بلوغت کے آغاز میں انگلیاں چٹخاتا ہے؟
الغرض جتنے منہ اتنے مسئلے مسائل۔
سدرہ کی ساری اچھائیوں پر ایک جوں برابر عادت حاوی تھی اور وہ تھی معمولی سی تکلیف پر گھبرا جانے کی۔بہت ڈرپوک تھی کبھی کانٹا چبھ جاتا تو ایسے روتی جیسے بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔اندھیرے میں تنکا بھی دیکھتی تو سانپ سمجھ کر دھڑ دھڑ کرتے دل پر ہاتھ رکھتی۔بختیار صاحب ان کی والدہ بہت سمجھاتے وہ بس یہ کہہ کر خاموش ہوجاتی کہ ڈرنا خوفزدہ ہونا میری فطرت میں ہے اور فطرت کبھی نہیں بدل سکتی۔
بڑی تینوں بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ شادی کے بعد لازمی خانہ آبادی ہوتی ہے تو دستور زمانہ کے مطابق بچے کی آمد سے قبل میکے تشریف لایا کرتیں۔ان کی حالت اور ہئیت دیکھ کر معصوم اور ڈرپوک سدرہ کا حال زیادہ خراب ہوتا۔کام وہ سب کے کرتی لیکن جب بہنیں تکلیف میں ہسپتال کا رخ کرتیں سدرہ درد کی شدت سےان کے چہرے کے بدلتے رنگوں کودیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتی۔ماں کے کہنے پر بھی وہ زچہ بچہ سے ملنے ہسپتال نہ جاتی،ابا سمجھاتے لیکن وہ بغیر کچھ کہے انکار میں سر ہلا دیتی۔
زچہ بچہ گھر آتے ،وہ بہنوں کو بچے میں مگن دیکھ کر حیران ہؤا کرتی۔
’’لو یہ عجب قصہ ہے !ابھی چھ سات گھنٹے قبل تکلیف سے مری جارہی تھیں رنگ ہلدی پیلا پھٹک ہؤا پڑا تھا اور اب دیکھو دونوں گال لال گلال ہوئے پڑے ہیں‘‘۔
وہ بہن کا ہاتھ پکڑ کر پوچھتی’’سمیرا آپی کیا بچے کی پیدائش کی بہت تکلیف ہوتی ہے؟‘‘
’’ آپی اس بھولی بھیڑ جیسی بہن کی طرف دیکھتیں اور آنکھیں کھول کر پہلے اسے حیرت سے دیکھتیں پھر کہتیں‘‘۔
’’ ارے تم کیا جانو…..بس سمجھو دنیا کے کسی ریکٹر سکیل پر اس کو ناپا نہیں جا سکتا‘‘ وہ ٹھنڈی سانس خارج کرتیں۔
اس کے بعد کنواری سہمی بہن کے سامنے وہ اپنی ڈلیوری اور لیبر پین کا ایسے ذکر چھیڑتیں کہ داستان امیر حمزہ بھی پیچھے رہ جائے۔
دوسری بہنوں کا بھی یہی حال تھا ۔سدرہ تو پہلے ہی ڈرپوک اور بزدل تھی ،بہنوں کی زچگیوں نے اسے شادی سے ہی ڈرا دیا۔یہی وجہ تھی کہ دنیا میں عقل مند اور سیانی کے نام سے مشہور سدرہ نے جب اچھے بھلے رشتے کا کھٹ سے انکار کیا تو سب گھر والوں نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کے سر پر ایک نہ دو پورے بارہ سینگ نکل آئے ہوں۔
دادی جان ، امی ابا ، تینوں بہنوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اس کی ناں ہاں میں نہ تبدیل ہوئی۔بس ایک اس کی بھابھی تھیں تبسم فردوس، جو اس کے ڈر اور خوف کا اثر زائل کرنے میں جت گئیں۔فطرت کی وہ بے حد اچھی تھیں۔ دو بچے پیدا ہوئے دونوں سسرال میں اور سدرہ کو گھر میں ہوتے ہوئے بھی پتہ نہ چلا وہ کب ہسپتال گئیں اور بے بی کیسے دنیا میں آیا۔
جب بھابھی کے چچا زاد انجینئر بھائی کا رشتہ بھی اس نے قبول نہیں کیا تو بھابھی بچے کے ہمراہ اس کے کمرے میں آئیں،آہستہ آہستہ سدرہ سے اس کے انکار کی اصل وجہ دریافت کرنا چاہی۔
دھیمے لہجے میں سدرہ نے دل کی ساری بات بھابھی سے کہہ دی۔بچے کی پیدائش کی درد برداشت نہ کرسکنے ، شوہر کے بدلتے رویّے ، ساسوں کی سخت مزاجی اور جو جو وہ بہنوں کے منہ سے ان کی سسرال والوں کے بارے میں سنا کرتی تھی۔
’’ چچ چچ چچ…..‘‘بھابھی نے نادان بہنوں کے روددیّے پر افسوس کا اظہار کیا اور بولیں’’ پہلی بات تو یہ کہ یہ بتاؤمیکے میں کبھی کوئی اونچ نیچ نہیں ہوتی؟ آنٹی جب کبھی مجھے ڈانٹیں یا انکل کبھی غصے میں آتے ہیں تو میں یہ سوچ کر اپنے آپ کو تھپکی دیتی ہوں کہ میرے امی ابو تو اس سے زیادہ سخت سست کہہ لیتے تھے ۔اس سوچ کے ساتھ سسرال میں رہنا آسان ہوجاتا ہے ۔میرا خیال ہے تم بھی اگر یہی فارمولا لے کر جاؤ گی تو مسائل کم ہوں گے۔ بدقسمتی سے تمہیں سسرالی حالات بتاتے ہوئے انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ تمہارے کچے کورے ذہن پر ان باتوں کا کتنا برا اثر پڑ رہا ہے۔
باقی رہی بات بچوں کی پیدائش میں تکلیف برداشت نہ کرسکنے کی …..تو تم تو ماشاءاللہ خود قرآن کا ترجمہ تفسیرپڑھ چکی ہو، جانتی ہو کہ اللہ کسی جان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔بالفرض پھر بھی کوئی خوف ہے تو آج کل میڈیکل سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے ،بغیر درد کے پیدائش کے لیے انجکشن میسر ہیں….. ایپی ڈیورل کی ڈیلیوری بھی تو سہولت ہے اگر دل مانے‘‘ ۔
بھابھی نے اس کے سارے خدشات پانی کے بلبلے کی طرح کردیے۔
سدرہ کے دماغ میں کوندا سا لپکا…..اپنے آپ سے اس نے سرگوشی کی’’ایپی ڈیورل ، پین لیس ڈلیوری…..اوہ مائی گاڈ!‘‘
اسے بے ساختہ پیپلز کالونی میں رہنے والی دور پار کی معمر رشتہ دار خاتون کا آخری وقت یاد آگیا۔وہ کئی دن جانکنی کی تکلیف میں مبتلا رہی تھیں تو کسی عالم کے مشورے پر اجتماعی دعا کے لیے گھر والوں نے مدعو کیا۔امی کے ساتھ وہ بھی چلی تو گئی لیکن ان رشتہ دار خاتون کی حالت دیکھ کر وہ کئی دن تک بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔تب اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہؤا تھا کہ کیا سب اسی جان کنی کی کیفیت میں مبتلا ہوکر جاتے ہیں ؟یا موت کی آسانی کے لیے بھی کوئی طریقہ ہے؟
بھابی سے گفتگو تو جو بھی تھی، مگر ان کی بات سے ایک اور اٹکے ہوئے سوال کاجواب اسے مل گیا تھا !
آئے دن فلسطینی لوگوں کی وڈیو دیکھنے اور غزہ میں شہادت کا رتبہ پانے والوں کے چہرے پر گہری مسکراہٹ ان کے لیےجان کنی کے وقت کا ایپی ڈیورل ہی تو ہے!!
کیسے پرعزم چہرے کے ساتھ غزہ کی ایک ماں چار جوان جہان بیٹوں کی شہادت کے بعد یہ کہتے ہوئے سننے والوں کےدل ٹھنڈے کر رہی تھی۔
’’ واللہ میرے چار بیٹے شہید ہوئے لیکن چیونٹی کے کاٹنے جتنی تکلیف نہیں ہوئی….. سب نعرہ تکبیر کے ساتھ شہید ہوئے…..واللہ وہ فائز ہوئے …..‘‘
اورسدرہ کی آنکھوں میں چمکتا پانی دیکھ کر بھابھی سوچ میں تھیں کہ سہولت کی خبر سن کرآنسو کس بات پر ؟
٭٭٭