ستمبر ۲۰۲۴اسلامی ممالک میں ہیومن ملک بینک کا قیام: پاکستانی تناظر میں -...

اسلامی ممالک میں ہیومن ملک بینک کا قیام: پاکستانی تناظر میں – شگفتہ عمر۱ ؎

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیو نٹولوجی( ایس۔ آئی۔ سی۔ ایچ۔ این) کراچی کے تحت عالمی ادارہ یونی سیف اور پاکستان پیڈی ایٹرک ایسوسی ایشن کے تعاون سے اوائل جون میں پاکستان میں پہلے ’ہیومن ملک بینک‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا باقاعدہ افتتاح سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کیا۔ اس بینک کو شریعت سے مطابقت رکھنے والا ’شریعہ کمپلائنٹ‘ ’انسانی دودھ بینک‘ قرار دیا گیا تھا۔
اخبارات کےمطابق اس بینک کے قیام میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک فتویٰ سے راہنمائی لی گئی تھی جس کے تحت ایسے بینک کے قیام کے لیے کچھ شرائط عائد کی گئی تھیں۔ اولاً دودھ مہیا کرنے والی خواتین کے مکمل ڈیٹا کا حصول اور اس ڈیٹا کو بینک سے دودھ حاصل کرنے والے بچوں کی ماں سے شیئر کرنا تھا، تاکہ رضاعت کے رشتے کا ریکارڈ قائم رکھا جا سکے۔ ثانیاً یہ لین دین بلا اجرت ہونا چاہیے اور اس میں خرید و فروخت کا کوئی تصور نہ ہو۔ ثالثاً مسلمان بچوں کو صرف مسلمان ماؤں کا دودھ فراہم کیا جانا چاہیے۔ رابعاً دودھ طبی تقاضوں کے تحت بیکٹیریا اور وائرس سے پاک ہو۔ خامساً یہ دودھ صرف 30 ہفتوں سے کم وقت میں پیدا ہونے والے ان بچوں کو فراہم کیا جائے جن کی ماؤں کا دودھ ان کی طبی اورغذائی ضروریات کے لیے ناکافی ہو۔ اور یہ کہ اس تمام عمل کی باقاعدہ ڈیٹا بیس کے ذریعے نگرانی رکھی جائے۔
اسلامی احکامات کے تحت کسی شیر خوار بچے کو غیر عورت کا دودھ پلانا جائز ہے جیسا کہ قرآن نے بیان کیا کیونکہ وہاں عورت متعین ہے۔ البتہ ایک جگہ جب بہت سی ماؤں کا دودھ اکٹھا کیا جائے گا تو وہاں غیر متعین عورت ہونے کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔ اگر شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے ایسا کیا جائے تو یہاں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، لہٰذا اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے چند سال قبل ایک ادارے کو اس طرح کا فتوٰی دیا تھا۔
تاہم کراچی میں بینک کے قیام کی خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف طبقات کے درمیان مباحث کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر، مختلف ٹی وی پروگرامز میں عوام الناس اور علماء کی آراء سامنے آئیں۔ فقہی اداروں کی طرف سے فتاوٰی بھی سامنے آئے۔ اسی دوران جے یو آئی پاکستان کے پارلیمانی لیڈر سینٹر مولانا عطاء الرحمٰن اور سینٹر عبدالشکور خان کی جانب سے ایوان بالا میں انسانی بینک کے قیام کے عدم جواز کے حوالے سے قرارداد بھی پیش کی گئی۔ اس تناظر میں دارالعلوم کراچی کے تحت 16 جون 2024 کو اپنے پہلے فتویٰ سے رجوع کرتے ہوئے ایک اور فتویٰ جاری کیا گیا۔ نظر ثانی شدہ فتویٰ کے مطابق حالیہ تناظر میں غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان تمام شرائط پر عمل درآمد تقریبا ًناممکن ہوگا جو دسمبر 2023 میں جاری کردہ فتویٰ میں بیان کی گئی تھیں۔ اخباری خبر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے بھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ یہ بینک رضاعت کے رشتوں کے حوالے سے شرعی احکامات پر اثر انداز ہونے کا ذریعہ بنے گا، جہاں ایک لڑکا اور لڑکی، جنہوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو، شادی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ڈونر کی مکمل شناخت کا علم ہونا ضروری ہے، تاکہ مستقبل میں پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیو نٹولوجی کراچی کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ دارالعلوم کراچی کی طرف سے 16 جون 2024 کو جاری کردہ حالیہ نظر ثانی شدہ فتویٰ نے ہمیں ہیومن ملک بینک کی فعالیت کو بند کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ تازہ ترین مذہبی رہنمائی کے مطابق ہے اور اسلامی فقہ کے فریم ورک کے اندر کام کرنے کے لیے ہمارے جاری عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ چنانچہ اس پروجیکٹ آپریشن کو فی الحال معطل کرتے ہوئے دارالعلوم کراچی اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی سے مزید رہنمائی طلب کی جائےگی کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہیلتھ کیئر اقدامات نہ صرف سائنسی بنیادوں پر مستحکم ہوں بلکہ شریعت سے بھی مطابقت بھی رکھتے ہوں۔
’انسانی دودھ کے بینک‘ کے قیام میں سب سے بڑا مسئلہ دو افراد بلکہ خاندانوں کے درمیان رضاعت کے رشتے کا قائم ہونا، رضاعی رشتوں کا احترام اور اس حوالے سے ان رشتوں کے درمیان شادی کی حرمت کا قائم ہونا ہے۔ قرآن اور حدیث میں رضاعت کے حوالے سے معاملات طے شدہ ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر امت کا اجماع بھی موجود ہے۔ ایک صدی قبل ’ہیومن ملک بینک‘ کا قیام عمل میں آیا، اور ان کی تعداد اور فعالیت کے بڑھنے کے ساتھ مختلف علماء اور فقہی کونسلز بھی اس حوالے سے اپنی آرا دنیا کے سامنے پیش کرتی رہی ہیں۔ البتہ نئے پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے علماء و فقہاء کی آراء کے اختلافات اپنی جگہ موجود ہوتے ہیں۔ نیز محققین اپنے مطالعات میں نئے نئے سوالات اٹھا کر اپنی آراء و تجاویز بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ مضمون میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ’انسانی دودھ کے بینک‘ سے متعلق مختلف پہلوؤں کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ اسلامی ممالک اور خصوصا ًپاکستان کے تناظر میں ’ہیومن ملک بینک‘ کے قیام پر گفتگو کرتے ہوئے آغاز میں ہم چند بنیادی امور پر گفتگو کریں گے مثلاً طبی حوالے سے بچے کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت، ’ہیومن ملک بینک‘ کے قیام کے مقاصد اور کام کا طریقہ کار اور مغربی یا دیگر ممالک میں ان کے تجربات اور متعلقہ قانون سازی۔ بعد ازاں دودھ پلانے سے رشتہ رضاعت کے احکامات قرآن اور احادیث کی روشنی میں، رضاعت ثابت ہونے کے لیے بچے کی عمر، دودھ کی مقدار یا تعداد اوقات، مختلف ذرائع سے جمع شدہ دودھ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) کی شناخت کے حوالے سے قرآن و احادیث یا فقہی آراء، اور انسانی دودھ بینک کے قیام کے سلسلے میں ملکی اور غیر ملکی علماء، محققین اور مختلف فقہی کونسلز کی آراء بیان کی جائیں گی۔ اور آخر میں حاصل گفتگو بیان کیا جائے گا۔
طبی حوالے سے ماں کے دودھ کی اہمیت :
ماں کا دودھ پیدائش کے فوراً بعد بچے کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ اور ابتدائی انسانی بقا کے لیے غذائیت کا ایک ناقابل تلافی ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کا بچوں کی فنڈنگ کا ادارہ، پیدائش کے بعد کم از کم 6 ماہ تک اور 2 سال یا اس سے زیادہ عمر تک ماں کا دودھ جاری رکھنے کی تجویز کرتا ہے۔ بچے کو زندگی کے پہلے چھے مہینوں میں درکار تمام وٹامنز اور غذائی اجزاء کے علاوہ، انسانی دودھ بیماریوں سے لڑنے والے مادوں سے بھرا ہوتا ہے جو بچے کو بیماری سے بچاتا ہے۔ یہ تحفظ کسی بھی فارمولے یا تجارتی طور پر تیار کردہ مصنوعات سے ممکن نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں، چھاتی کے دودھ سے زیادہ مماثلت کے لیے مختلف نوزائیدہ فارمولے تیار کیے گئے ہیں اور ان میں مخصوص اجزاء، جیسے انسانی دودھ میں موجود اولیگوساکرائیڈ کے ساتھ اضافہ کیا جا تا ہے۔ اگرچہ یہ فارمولے بہت سے اجزاء کے لحاظ سے انسانی دودھ سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن انسانی دودھ کا کوئی بہترین متبادل نہیں ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جبکہ عطیہ کیا گیا (ڈونر) انسانی دودھ کسی بچے کے لیے بہترین انتخاب ہو سکتا ہے پھر بھی یہ کسی بچے کےلیے ماں کا اپنا دودھ پلانے جیسا نہیں ہے۔ ہرماں کا دودھ قدرت کی طرف سے اس کے بچے کی ضروریات کے مطابق بنایا جاتا ہے، بشمول بچے کی عمر، دن کا وقت، اور ضروری قوت مدافعت وغیرہ ۔ نیزڈونر کے دودھ کو پاسچرائز کیا جاتا ہے (پاسچرائزیشن دودھ میں ممکنہ پیتھوجینز کو مار دیتی ہے)، لیکن اس عمل سے دودھ کی کچھ حفاظتی قوت مدافعت بھی کم ہوسکتی ہے۔ آج تک کی بہت سی تحقیقات نے انسانی دودھ میں غذائی اجزاء، جیسے مختلف میکرونیوٹرینٹس اور مائیکرونیوٹرینٹس کا انکشاف کیا ہے اور اس کے امیونولوجک اجزا کے بارے میں مطالعہ کیا ہے۔ نیز انسانی دودھ کے مختلف اجزا اور ان کے کرداروں کا مطالعہ مختلف تجزیہ تکنیکوں کے نفاذ کے ساتھ کیا گیا ہے جوانسانی دودھ کے ان اجزا کی بہتر تفہیم کےمختلف پہلوؤں میں مدد کرتی ہے، جیسے دودھ پلانے کی تعلیم دینا اور کھانا کھلانے کی بہتر عادات کی حوصلہ افزائی کرنا، نیز زیادہ خطرہ والے بچوں کے علاج میں، جیسے کہ قبل از وقت پیدائش، انفیکشن، اعصابی امراض، اور معدے کے امراض کے حوالے سے راہنمائی فراہم کرنا۔
انسانی دودھ کے بینک سے کیا مراد ہے؟
انسانی دودھ کا بینک، چھاتی کے دودھ کا بینک یا لیکٹیریم ایک ایسا ادارہ ہے جو دودھ پلانے والی ماؤں کے ذریعہ عطیہ کیے گئے انسانی دودھ کو جمع، اسکرین، پراسیس، پاسچرائز، اور ڈسپنس کرتا ہے۔ یہ ان ماؤں کا دودھ ہوتا ہے جو وصول کنندہ بچے سے حیاتیاتی طور پر متعلق نہیں ہیں۔
 انسانی دودھ میں خون سے پیدا ہونے والے ممکنہ پیتھوجینز:
چھاتی کے دودھ میں خون سے پیدا ہونے والے ممکنہ پیتھو جینز: ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی، ویسٹ نائل وائرس، سا ئٹو میگا لووائرس (سی ایم وی)، انسانی ٹی سیل لیمفوٹروپک وائرس و دیگر شامل ہو سکتے ہیں۔ اس لیےعطیہ دینے والی ماں اور دودھ کی مناسب سکریننگ بہت ضروری ہے۔
پیسچرائز انسانی دودھ سے کیا مراد ہے؟
انسانی دودھ جو کسی بینک کو عطیہ کیا جاتا ہے اسے حفاظتی حوالے سے پیسچرائز کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے اس میں موجود نقصان دہ بیکٹیریا یا وائرس ختم ہو جاتے ہیں۔ پیسچرائزیشن کا یہ طریقہ کار اسی طرح انجام دیا جاتا ہے جس طرح گائے کے دودھ کے تحفظ کویقینی بنانے کے لیے عمل میں لایا جاتا ہے۔ پیسچرائزیشن کا عمل چھاتی کے دودھ کو تبدیل نہیں کرتا۔ زیادہ تر منفرد غذائی اجزاء جیسے مدافعتی عوامل جو صرف چھاتی کے دودھ میں پائے جاتے ہیں، پیسچرائزیشن کے بعد برقرار رہتے ہیں، البتہ کچھ غذائی اجزاء کی سطح قدرے کم ہو جاتی ہیں۔
انسانی دودھ کے بینک کس طرح کام کرتے ہیں؟
 ’انسانی دودھ کے بینک‘ ضرورت مند بچوں کو فراہم کرنے کے لیے ماں کا دودھ اکٹھا کرتے ہیں۔ مغربی مملک میں اس کے لیے سو فیصد دودھ نامعلوم شناخت سے حاصل کیا جاتا ہے بلکہ شناخت ظاہر کرنا قانوناً منع ہوتا ہے۔ معروف بینک پہلے عطیہ دہندگان کی اسکریننگ کرتے ہیں پھر ان تمام خواتین کا دودھ اکٹھا کر کے پیسچرائز اور اسکرین کیا جاتا ہے۔ بینک دودھ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اس کی نقل و حمل، پروسیس، ذخیرہ اور جانچ پڑتال پرمتعلقہ اداروں کے معیارات کے مطابق عمل درآمد کرتے ہیں۔
ہیومن ملک بینک کے ذریعےڈونر انسانی دودھ سے کون مستفید ہوتا ہے؟
بینکوں سے زیادہ تر دودھ ہسپتالوں کو فراہم کیا جاتا ہے جہاں یہ قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں، کم وزن کے بچوں اور دیگرضرورت مند نوزائیدہ بچوں کے لیےاستعمال ہوتا ہے۔ دیگر فوائد کے علاوہ، ماں کا دودھ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں میں آنتوں کی ایک بہت سنگین بیماری، نیکروٹائزنگ اینٹروکولائٹس کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ اگر بچے ضرورت مند ہوں اور بینکوں کے پاس مناسب فراہمی ہو،تو کچھ بینک گھر میں بھی بچوں کے لیے دودھ فراہم کرتے ہیں۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (اے۔ اے۔ پی) کا دعویٰ ہے کہ انسانی دودھ بچوں کے لیے غذائیت کے حوالے سے مطلوبہ معیارہے۔ اگرچہ ماں کا اپنا دودھ اس کے بچے کے لیے بہترین ہے۔ اس کے علاوہ، امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس یہ کہہ کر دودھ کی بینکنگ کی حمایت کرتی ہے کہ’اگر دودھ پلانے میں اہم مدد کے باوجود ماں کا اپنا دودھ دستیاب نہیں ہے، تو پاسچرائزڈ ہیومن ڈونر دودھ استعمال کرنا چاہیے۔ یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن تجویز کرتی ہے کہ اگر صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے سے مشاورت کے بعد، کوئی اپنے بچے کو کسی دوسرے ذریعہ سے انسانی دودھ پلانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو وہ صرف اس دودھ کا استعمال کریں جس کی عطیہ دہندگان کے طریقے کے مطابق اسکریننگ کی جا چکی ہے۔
عطیہ شدہ انسانی دودھ کے استعمال نے بہت سے شیر خوار بچوں کی زندگیاں بچائی ہیں اور علاج اور بیماری کی روک تھام کے ذریعے لاتعداد قبل ازوقت پیدا ہونے والے اور بیمار بچوں کی صحت کے نتائج پر مثبت اثر ڈالا ہے۔
عطیہ شدہ انسانی دودھ کسی بھی ایسے بچے کے لیے ضروری ہے جس کا مدافعتی نظام کمزور ہو یا جس کی خاص غذائی ضروریات ہوں، یا جب وصول کنندہ ماں بیمار ہو، یا اس نے متعدد بچوں کو جنم دیا ہو اور اسے اضافی خوراک کی ضرورت ہویا وہ مخصوص قسم کی دوائیں لے رہی ہو، مثلاً پوسٹ پارٹم مدت کے دوران شدید پیچیدگیوں یا منشیات لینے کی بنا پر، یا جب ماں کی چھاتی کی سرجری ہوئی ہو، کیموتھراپی یا ریڈیو تھراپی ہو رہی ہو، یعنی جہاں ان کا دودھ پلانے سے منع کیا جاتا ہے۔
دنیا میں ملک بینک کا آغاز، قوانین اور تجربات کا جائزہ:
پہلا ’انسانی دودھ بنک‘ ویانا، آسٹریا میں 1909 میں قائم کیا گیا ۔ شمالی امریکہ میں دودھ کی بینکنگ کا آغاز 1919 میں بوسٹن، امریکہ میں ہؤا۔ کینیڈا میں وینکوور اور برٹش کولمبیا میں پہلا’دودھ کا بینک‘ قائم ہؤا جو2010 تک کینیڈا کا واحد ’ملک بینک‘ تھا۔ 1943 میں، امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (اے۔ اے پی) نے ’دودھ کے بینکوں‘ کے لیے رہنما اصول قائم کیے، جو اب ملک بینکنگ ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کے ذریعے نافذ کیے گئے ہیں۔ انسانی دودھ کے بینکوں کو ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کی قرارداد (1980) کے ذریعے حمایت حاصل ہوئی۔ 1985میں،شمالی امریکہ میں قائم کردہ انسانی دودھ بینکنگ ایسوسی ایشن کا بنیادی مقاصد تمام شمالی امریکہ کے ’انسانی دودھ بینکس‘ کے لیے یکساں معیارات قائم کرنا تھا۔ 1960کی دہائی میں، نوزائیدہ بچوں کی طبی دیکھ بھال اور غذائیت، خاص طور پر اعلیٰ معیار کے شیرخوار فارمولوں کی ترقی کی وجہ سے انسانی دودھ کے بینکنگ کی کوششیں معدوم ہو گئیں۔ 1980 کی دہائی میں، نئی متعدی بیماری، ایچ آئی وی، آ گئی۔ چونکہ یہ وائرس ماں کے دودھ کے ذریعے بھی منتقل ہوتا ہے، چنانچہ اس وجہ سے اضافی مالی بوجھ کی بنا پر بہت سےدودھ بینک بند ہو گئے کیونکہ انسانی دودھ کے ذریعے بیماری کی منتقلی کو صحت کے لیے خطرہ تسلیم کرتے ہوئے ماں کی سیرولوجیکل جانچ ضروری ہو گئی۔ تاہم، مناسب اسکریننگ اور انسانی دودھ کے فوائد اور حفاظت کے بڑھتے ہوئے ثبوت کے ساتھ ’ڈونر دودھ بینکوں‘ کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہؤا۔
یورپی دودھ بینک ایسوسی ایشن (ای۔ ایم۔ بی۔ اے) کی بنیاد 2010 میں عطیہ دہندگان کے ’دودھ کی بینکنگ‘ کے ذریعے دودھ پلانے کی حوصلہ افزائی کرنے اور پورے یورپ میں ’ڈونر دودھ بینکوں‘ کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے لیے رکھی گئی تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو۔ ایچ۔ او) اور اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مشترکہ بیان کے مطابق: ’جہاں حقیقی ماں کے لیے دودھ پلانا ممکن نہ ہو، وہاں پہلا متبادل، اگر دستیاب ہو تو، دیگر ذرائع سے انسانی دودھ کا استعمال ہونا چاہیے نیز’انسانی دودھ کے بینک‘ مناسب حالات میں دستیاب ہونے چاہئیں‘۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے چارٹر (سی۔ آر۔ سی) کے آرٹیکل 24 کے مطابق اس معاہدے کے ریاستی فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص والدین اور بچوں کو بسلسلہ تعلیم تک رسائی، بچوں کی صحت اور غذائیت کے بارے بنیادی معلومات کا حصول اور ماں کے دودھ کے فوائد کے بارے میں، آگاہی مہیا ہو۔
بینکوں کی تعداد کے حوالے سے مختلف مطالعات میں زمانہ ریسرچ کی بنا پر مختلف تفاصیل سامنے آتی ہیں۔ 2012 میں ’ہیومن ملک بینک‘ کی تنظیموں کے تحت تقریبا ً500 بڑے بینک 38 ممالک میں کام کر رہے تھے۔ 2017 کی ایک ریسرچ کے مطابق دنیا میں اندازاً 750 ’ملک بینک‘ موجود تھے جن میں : یورپ کے 25 ممالک میں 206 بینک قائم تھے؛ ایشیا میں انڈیا میں 22 ، چائنہ میں 12، کویت میں ایک اور فلپائن میں چھ بینک قائم تھے؛ آسٹریلیا میں چار اور نیوزی لینڈ میں ایک بینک تھا؛ افریقہ کے دیگرممالک میں 10اور ساؤتھ افریقہ میں 60 بینک تھے؛ امریکہ اور کینیڈا میں 26 اور ساؤتھ امریکہ کے نو ممالک میں 258 بینک قائم تھے؛ سینٹرل امریکہ میں میکسیکو میں 17 اور دوسرے ممالک میں 28 بینک قائم تھے۔
برازیل کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے لیے بہت سے اسباق کے ساتھ سب سے زیادہ وسیع اور شاید بہترین منظم نظام رکھتا ہے۔ ناروے اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ یہ ڈونر کے دودھ کو پاسچرائز نہیں کرتا۔ کچھ ممالک میں دودھ کی فروخت میں بہت زیادہ پیچیدگیوں کا سامنا ہے ۔ بہت سے ممالک میں، دودھ کی بینکنگ ابھی بھی سیاسی ارادے کی کمی، یا مذہبی خدشات کی وجہ سے کافی حد تک محدود ہے، یا اس وجہ سے بھی کہ متعدی بیماری کی اعلیٰ شرح والی آبادی میں مائیں صحت کے نظام پر مکمل اعتماد نہیں کرتیں۔ عطیہ دہندگان کی طرف سے یہ دودھ اکثر بطور تحفہ اوررضاکارانہ تعاون کے طور پر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات مالیاتی وجوہات کی بنا پر بھی۔ دودھ کے بینکوں نے حالیہ دہائیوں میں تیزی سے ترقی کی ہے، لیکن اسلام میں دودھ کے ذریعےرشتہ داری کے تصورکی وجہ سے انہیں مسلم ممالک میں متعددچیلنجز کا سامنا کرنا پڑاہے۔ اگرچہ اسلامی اعتقاد کا یہ تصور مغربی دنیا میں ناقابل فہم تھا اور کئی لوگ اسے محض عرب کی تاریخی روایات کہہ کر مسترد کرتے تھے، لیکن مسلما نوں نے اپنے ایمان اور عمل سے مغرب کو بھی یہ باور کروا دیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے شریعت کے اہم تقاضے معنی رکھتے ہیں۔ چنانچہ دنیا بھر میں اس حوالے سے بہت سی تحقیقات کی گئیں اور ہسپتالوں کے شعبہ نوزائیدہ بچوں کے طبی عملے میں یہ حساسیت پیدا کی گئی کہ اگر مریض بچہ مسلمان ہے اور اسے ڈونر دودھ کی ضرورت ہے تواس کے والدین سے کس طرح اس حوالے سے بات کرنی چاہیے اور اس معاملے کو کس طرح نمٹانا چاہیے ۔ نیز مختلف ’ملک بینکس‘ میں ان علماء کی رائے سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے جنہوں نے مغربی مملک میں کچھ شرائط کے ساتھ مسلمانوں کو ان سہولیات سے مستفید ہونے کی اجازت دی ہو۔
ملک بینک مطلوبہ معیارات کو کیسے برقرار رکھتا ہے؟
چھاتی کا دودھ آسانی سے آلودہ ہو سکتا ہے، اس لیے اس کی حفاظت کو یقینی بنانا بہت اہم ہے۔ یورپ میں یورپین ملک بینک ایسوسی ایشن کے معیارات کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ کے ’ملک بینک‘ ہیومن ملک بینک ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ اور پبلک ہیلتھ ریگولیشن کے مطابق خوراک کی پروسیسنگ اور اسٹوریج اور صحت کے ضوابط کے مقرر کردہ رہنما خطوط پر عمل کرتے ہیں۔ اس رضاکارانہ پیشہ ورانہ تنظیم کے ساتھ منسلک 31 ممبر بینک معیاری تسلیم کئے جاتے ہیں جو پیسچرائزڈ انسانی ڈونر دودھ فراہم کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈونر دودھ منافع بخش تنظیموں کے بینکس کے ذریعے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جہاں یہ پانچ سے 16 ڈالر فی اونس کی قیمت پر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کمیونٹی یا آن لائن انفرادی ذرائع سے بھی دودھ فروخت اور حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ان سب میں کافی حد تک خطرے کا عنصر ہوتا ہے کیونکہ ایسے دودھ کی کسی ضابطہ کے مطابق سکریننگ نہیں ہوتی۔
(جاری ہے)
٭٭٭
احکامات رضاعت اور متعلقہ مسائل:
شریعت اسلامیہ میں دیگر حلال و حرام کے مسائل کی طرح رضاعت کا مسئلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ محض دودھ پینے پلانے کی بات نہیں ہے بلکہ اس پر باقاعدہ شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ رضاعت سے باقاعدہ اسی طرح حلت و حرمت ثابت ہوتی ہے جس طرح نسبی اور خونی رشتوں سے ثابت ہوتی ہے۔ فطری طور پر اور احکامات اسلامی کے مطابق بچوں کو دودھ پلانا ماؤں کی بنیادی ذمہ داری ہے جس پر ان کو بے پناہ اجر کی بشارت دی گئی ہے اور اولاد کو اس حوالے سے ماؤں سے خصوصی طور پرحسن سلوک اور خدمت کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ البتہ قرآنی احکام کے مطابق ہی اگر کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہ پلانا چاہے یا باپ کسی اور عورت سے دودھ پلوانا چاہے تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔البتہ اس سے رضاعت کے رشتے قائم ہوتے ہے۔ نبی کریم ؐ نے بھی حضرت ابو طالب کی لونڈی ثوبیہ، حلیمہ سعدیہ اور دیگر خواتین کا دودھ پیا تھا اور اپنی زندگی میں ان رشتوں کے احترام اور تقدس کا خیال رکھا۔
’اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے) ہم نے اس کو نصیحت کی کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے‘۔(لقمٰن؛ ۱۴)
’ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے۔ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔(الاحقاف؛ ۱۵)
’جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدت رضاعت تک دودھ پیے تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ اس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے۔ نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے اور نہ ہی باپ کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے۔ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا کہ بچے کے باپ پر ہے ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے۔ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلانے کا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو وہ معروف طریقے پر ادا کرو۔ اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو سب اللہ کی نظر میں ہے‘۔(البقرہ۔ ۲۳۳ )
’ان کو زمانہ عدت میں اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک کہ ان کا وضع حمل نہ ہو جائے۔ پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو اور بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنا میں) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلا لے گی۔ خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ نے جس جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگدستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے‘۔ (الطلاق۔ ۶۔۷)
دودھ پلانے سے رشتہ رضاعت کے احکامات قرآن اور احادیث کی روشنی میں:
’تم پر حرام کی گئی تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں….(النساء : ۲۳)
اسی طرح نبی کریمؐ نے فرمایا: ’رضاعت سے بھی وہی حرمت حاصل ہوتی ہے جو نسب سے ہوتی ہے۔‘ (صحیح مسلم 1445)۔
نبی کریمؐ کو کہا گیا کہ آپ اپنے چچا حمزہؓ کی بیٹی سے شادی کر لیں۔آپؐ نے فرمایا:’ وہ میرے لیے حلال نہیں ہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہیں۔ جو رشتے خون کے سبب سے حرام ہوتے ہیں وہی رضاعت کے سبب بھی حرام ہوتے ہیں‘۔ (صحیح مسلم 1447)۔ (چونکہ حضرت حمزہ ؓ اور آپؐ نے ایک ہی خاتون کا دودھ پیا تھا)۔
عقبہ بن حارث ؓ نے ام یعقوب بنت ابی اہاب بن عزیزؓ سے شادی کی۔ لیکن ایک سیاہ فام عورت نے کہا کہ میں نے دونوں کو دودھ پلایا ہؤا ہے۔ عقبہؓ یہ مسئلہ لے کر رسول اللہؐ کے پاس حاضر ہوئے تو نبی کریمؐ نے فرمایا: ’ یہ رشتہ کیسے قائم رہ سکتا ہے جبکہ رضاعت کی بات کر دی گئی ہے۔ چنانچہ عقبہؓ نے ام یعقوب سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے شادی کی۔ (صحیح بخاری 2640 )۔
شریعت اسلامیہ میں دودھ کی رشتہ داری کے متعلق عمومی قاعدہ یہ ہے کہ وہ تمام عورتیں جو کسی مرد کے لیے نسب کی وجہ سے ممنوع ہیں وہ کسی عورت کے دودھ پلانے کی وجہ سے بھی حرام ہیں۔ عورت خود اس مرد بچے کے لیے ممنوع ہو جاتی ہے جسے اس نے دودھ پلایا ہے، کیونکہ اسے قانونی طور پر شادی کے نقطہ نظر سے اس کی ماں سمجھا جاتا ہے، نیز آپس میں احترام کے رشتے قائم ہو جاتے ہیں، اگرچہ وراثت اور نگہداشت (نان نفقہ) جیسی دوسری چیزوں کے لیے نہیں۔ مرضعۃ (دودھ پلانے والی عورت) کی ماں اور بیٹیاں بھی اس مرد بچے کے لیے ممنوع ہیں جسے اس نے دودھ پلایا ہے۔ مرضعۃ کی بیٹیوں کی بیٹیاں اور بیٹوں کی بیٹیاں بھی ممنوع ہوں گی۔ یہی صورتحال اس صورت میں ہو گی اگر کوئی عورت کسی لڑکی کو دودھ پلائے تو مرضعۃ کا باپ، اس کا شوہر، اس کے بیٹے، بیٹوں کے بیٹے، بیٹیوں کے بیٹے اس لڑکی کے لیے ممنوع ہو جاتے ہیں، جسے دودھ پلایا گیا ہے۔ اگر مرضعۃ دو غیر متعلقہ بچوں کو دودھ پلاتی ہے تو وہ بھائی بن جاتے ہیں، اور اگر ان میں سے ایک لڑکی ہو تو دونوں بچوں کے درمیان نکاح ممکن نہیں ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جو لوگ ایک سینہ پر جمع ہوتے ہیں وہ سب بھائی بھائی بن جاتے ہیں جیسا کہ معاملہ ہو۔ مرضعۃ کے بھائیوں کی بیٹیاں یا اس کی بہنوں کی بیٹیاں مرد کے بچے کے لیے ممنوع نہیں ہیں، کیونکہ وہ اس کی کزن بن گئی ہیں۔
اسی لیے فقہاء اسلام نے لکھا ہے کہ عورت ہر بچے کو دودھ نہ پلائے اور نہ ہی شوہر کی اجازت کے بغیر کسی اور بچے کو دودھ پلائے۔ اور اگر دودھ پلانا ضروری ہو تو اسے یاد رکھے اور خاندان کے لوگوں کو بتائے تاکہ کل دودھ کے رشتے کی حرمت پامال نہ ہو۔
رضاعت سے حرمت کا ثبوت مسلمانوں کے ہاں ایک اجماعی اور متفق علیہ مسئلہ ہے جس سے قرابت داری اور حلت و حرمت کے ثبوت میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو ان مسائل کو اس طرح نہیں لینا چاہیے جس طرح کے غیر مسلم یا آزاد خیال لوگ چیزوں کو دیکھتے ہیں کیونکہ جن کے نزدیک مرد و عورت کے تعلقات میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں تو وہ دودھ پینے پلانے میں یہ تکلف کیوں کریں گے۔
رضاعت ثابت ہونے کے لیے عمر، مقدار، مختلف ذرائع سے جمع شدہ دودھ (پولڈ ملک) اور نامعلوم شناخت سے حاصل شدہ دودھ کے حوالے سے فقہی آراء:
اسلامی قانون رضاعت کے تین بنیادی عناصر ہیں: مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت)؛ دودھ ؛ اور رضیع (وہ بچہ جو کسی کا دودھ پی لے)۔ عمر، مقدار، مختلف ذرائع سے جمع شدہ دودھ (پولڈ ملک) اور نامعلوم شناخت سے حاصل شدہ دودھ کے حوالے سے فقہی آراء درج ذیل ہیں۔
۱۔ رضاعت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی عورت دودھ چھڑانے کی عمر سے کم عمر کے بچے کو دودھ پلائے اور یہ کہ دودھ عورت کی چھاتی سے بچے کو جانا چاہیے۔ اگر چھاتی میں دودھ نہ ہو یا دودھ چھڑانے کی عمر سے زیادہ بچے کو دودھ پلایا جائے تو دودھ پلانے سے پیدا ہونے والی ممانعت رشتہ کی شرط پوری نہیں ہوتی۔ حدیث مبارکہ ہے: ’رضاعت بھوک سے ہے‘۔( صحیح بخاری 2647) یعنی رضاعت اسی عمر میں ثابت ہوتی ہے جب دودھ براہ راست بچے کی غذا بنتا ہو اور اس کی بھوک مٹاتا ہو۔ ایک اور روایت میں ہے: ’رضاعت صرف دو سال کی عمر میں ثابت ہوتی ہے‘۔ (موطا مالک 1290 )
راجح قول کے مطابق رضاعت کبیر ثابت نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی ’ملک بینک‘ سے مستفید ہونے والے بچے وہ ہوں گے جو ’کبیر‘ کے بجائے’ صغیر‘ اور’ شیر خوار‘ کے زمرے میں ہی آئیں گے، لہٰذا اس حوالے سے رضاعت اور اس بنا پر حلت و حرمت کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔اگر ایک ہی عورت سے دو یا دو سے زیادہ بچوں کو دودھ پلایا جائے، تو وہ رضاعی بہنیں اور رضاعی بھائی کہلائیں گے۔
رضاعت کے لیے دودھ کے چھاتی سے جانے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی چھاتی میں دودھ ہونا چاہیے۔ کیونکہ جمہور اہلِ علم کا یہی موقف ہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے براہ راست پستان سے پینا ضروری نہیں۔ اگر ویسے ہی کسی برتن وغیرہ میں دودھ نکال کر بھی پی لیا تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، کیونکہ اصل اعتبار دودھ کا معدے اور دماغ میں پہنچ کر خوراک اور غذا بننا ہے وہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہو جائے تو رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ بلکہ بعض فقہاء نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے جیسا کہ ابن نجیم لکھتے ہیں: ’وجور اور سعوط دونوں سے بالاتفاق حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ (وجور کا مطلب ہے دودھ نکال کر کسی برتن کے ذریعے منہ کی طرف سے دودھ پلانا اور سعوط کا مطلب ہے کہ ناک کے ذریعے دودھ ڈالنا)۔
۲۔ مسلمان فقہاء کی آراء میں دودھ پلانے کی تعداد یا مقدار کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔۔ امام شافعیؒ اور امام ابن حنبلؒ کے مقلدین کا خیال ہے کہ دودھ پلانا کم از کم پانچ مرتبہ ہونا چاہیے۔ وہ رسول اللہ ؐ کی ان احادیث پر اعتبار کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے سہلہ بنت سہیلؓ سے فرمایا: ’اگر تم سالم کو پانچ بار دودھ پلاؤ گی تو تم اس سے نکاح نہیں کرسکو گی‘۔[صحیح مسلم، 17 (33)]۔ نبی اکرم ؐ کا ایک اور قول ہے جہاں آپؐ فرماتے ہیں: ’نہ ایک دودھ پلانا اور نہ دو حرام کا سبب بنتا ہے‘۔[صحیح مسلم، 17 (24)]۔ ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں: ’ایک دو دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی‘۔(صحیح مسلم 1451 )
بعض اہلِ علم کے نزدیک ایک بار سیر ہو کر دودھ پی لینا کافی ہے لیکن کئی ایک اہل ِعلم کے نزدیک قرآن و سنت کی رو سے راجح یہی ہے کہ کم از کم پانچ بار دودھ پینا ضروری ہے، ایک دو بار دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں شروع میں دس رضاعتیں حرام کرتی تھیں پھر پانچ رضاعتوں سے حرمت کا حکم نازل ہوا۔ نبی کریمؐ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہی فیصلہ تھا۔ (صحیح مسلم 1452 )
۳۔ ’ہیومن ملک بینک‘ کے حوالے سے ایک اور مسئلہ ’مختلف ذرائع سے جمع شدہ دودھ ‘(پولڈ ملک) کا ہے یعنی جب مختلف خواتین سے حاصل کردہ دودھ ایک جگہ اکٹھا ہو رہا ہو،اور سکریننگ وغیرہ کے بعد بچوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔ اس حوالے سے فقہ میں معمولی اختلاف کے ساتھ تقریباً اجماع پایا جاتا ہے۔ چاروں سنی فقہی مکاتب میں فقہاء کی بھاری اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ جمع شدہ دودھ پول کے تمام عطیہ دہندگان کے ساتھ دودھ کی رشتہ داری قائم کرتا ہے۔ البتہ کچھ فقہاء کے مطابق اگر کسی عورت کا دودھ غالب مقدار میں ہو تو اسی سے رشتہ داری قائم ہوتی ہے۔
۴۔ اس معاملے کاایک پہلو نامعلوم شناخت سے حاصل ہونے والے دودھ سے متعلق بھی ہے۔ حنفی، شافعی اور حنبلی مکاتب فکر کے مطابق عطیہ دینے والے کا نام ظاہر نہ کرنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دودھ کی رشتہ داری قائم نہیں ہو سکتی، حالانکہ تینوں مکاتب کے فقہاء بھی احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔ حنفی مکتب کے فقہاء نے ایسے حالات پر بحث کی ہے جن میں عطیہ دینے والے کی خاص طور پر شناخت نہیں کی جا سکتی اور اس لیے دودھ کی رشتہ داری کو قائم نہیں سمجھا جاتا کیونکہ شک کی بنیاد پر ازدواجی رکاوٹ قائم نہیں کی جا سکتی۔ یہ شک شیر خوار بچے کے حقیقتاً دودھ پینے، یا پانچ سیشن مکمل کر نے، یا پیدائش کے دو سال کے اندر اندر دودھ پینے، یا دودھ کے پیٹ تک پہنچنے کے حوالے سے ہو سکتا ہے۔ان صورتوں میں ازدواجی رکاوٹ قائم نہیں ہوگی۔ اگرچہ یہ دعویٰ درست ہے کہ عطیہ دینے والے کا نام ظاہر نہ کرنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جمہور فقہاء کے نزدیک دودھ کی رشتہ داری قائم نہیں ہو سکتی لیکن ایسی صورت حال کا از خود پیدا کرنا بالکل جائز نہیں ہے، جہاں عطیہ دینے والے کی شناخت نہ ہو یاغیر یقینی ہو۔ اس کے برعکس، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ عطیہ کرنے والے اور وصول کنندہ دونوں کا مناسب ریکارڈ رکھا جائے۔ ان فقہاء میں سے بھی جو نامعلوم شناخت سے ازدواجی رکاوٹ کو قائم نہیں سمجھتے، بعض نے واضح طور پر یہ رائے دی ہے کہ خواتین کو احتیاط کرنی چاہیے کہ وہ کس کو دودھ پلاتی ہیں اور صرف ضرورت کے وقت دودھ پلائیں اور ایسا کرنے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ انہیں اس کا تحریری ریکارڈ رکھنا چاہیے کہ انہوں نے کس کو دودھ پلایا ہے اور اسے عام کرنا چاہیے تاکہ دوسرے اس سے پیدا ہونے والی ازدواجی رکاوٹوں سے واقف ہوں۔ کچھ فقہاءکی رائے ہے کہ اگر نوزائیدہ کسی گمنام عطیہ دہندہ سے دودھ حاصل کرتا ہے تو نسب یا اولاد مزید پیچیدہ ہو جائے گی، جبکہ اسلامی قانون کے بڑے مقاصد میں سے ایک حفظ النسل کی حفاظت کرنا ہے۔
(جاری ہے)
٭٭٭
حوالہ جات:
1 –  https://www.dawn.com/news/1841568/ ،جون 2024 ،عرب نیوز پاکستانhttps://arab.news/juzzr/ https://www.geo.tv/latest/550437-pakistans-first
            human-milk-bank-initiative-suspended-after-new-fatwa
2-  Clin Exp Pediatr. 2020 Aug; 63(8): 301–309. Published online 2020 Mar 23. doi: 10.3345/cep.2020.00059، PMCID: PMC7402982، PMID: 32252145، https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC7402982:
  3- Mastitis and other diseases carried through breast milk, by Jordan Berns, Lactation lab, https://lactationlab.com/
4-  Sinai health, Roger Hixon Ontario Human Milk Bank, Guidance for Donor Milk Usage، Pasteurized breast milk for preterm babies of Islamic faith, milkbankontario.ca
5-  Why Donor Human Milk, https://milkbank.rmchildren.org/why-donor-human-milk/
  6- Moro, G. E. (2018). History of milk banking: From origin to present time. Breastfeeding Medicine, 13(S1), S-16-S-17. https://doi.org/10.1089/bfm.2018.29077.gem
  7- World Health Assembly Resolution; 33.32, 1980.
8 –  F. Jones. History of milk banking: Human Milk Banking Association of North America; October, 2003.
  9- Noraida Ramli*, Nor Roshidah Ibrahim, Van Rostenberghe Hans، Human milk banks – The benefits and issues in an Islamic setting, ،Eastern Journal of Medicine 15 (2010) 164.
  10- Dr. Samia Maqbool Niazi, Dr. Mudasara Sabreen, Human Milk Banks and the Rules for Milk Siblings (Radā’), FAST Transactions on Islamic Research, http://vfast.org/journals/index.php/VTIR@ 2022, ISSN(e): 2309-6519, ISSN(p): 2411-6327, Volume 10, Number 1, January-March, 2022, p:57
11-  Nadja Haiden and Ekhard E. Ziegler, Human Milk Banking, www.karger.com/anm, Published online: January 20, 2017۔
  12- Sinai health, Roger Hixon Ontario Human Milk Bank, milkbankontario.ca
  13- Breast milk donation: How it works ِ،Baby Centre, 2022, https://www.babycenter.com/baby/breastfeeding/is-it-safe-to-let-a-relative-or-friend-breastfeed-my-baby_10370355
  14- Council of Islamic Ideology, Annual Report 2013-2014, p 308
15-  Ulama Fatwa Council, 22/06/2024. Fatwa No. 543
   بحوالہ علماء فتویٰ کونسل صحیح فقہ السنہ  ۳۔۸۸۔ 16
  بحوالہ علماء فتویٰ کونسل البحررائق ۳۔۲۴۶ 17
18- Nyazee, I. A. (2012). Outlines of Muslim personal law (1st ed.). Federal Law House Islamabad.
Parkes, P. (2005). Milk kinship in Islam. Substance, structure, history*. Social Anthropology, 13(3), 307-329. https://doi.org/10.1111/j.1469-8676.2005.tb00015.x
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here