ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

روٹھے ہو تم – بتول مارچ ۲۰۲۳

میں ایک کہانی نویس ہوں ۔میں جب لکھتی ہوں تو ڈوب کر لکھتی ہوں۔ اپنے پڑھنے والوں میں میری پہچان ہے۔لوگ مجھے شوق سے پڑھتے ہیں اور میرے لکھے ہوئے افسانوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ خالی خولی دعویٰ نہیں بلکہ اس کا ثبوت لاتعداد خطوط ہیں جو ہر ماہ میرے قارئین کی طرف سے مجھے وصول ہوتے ہیں۔
لیکن اس وقت میں ایک پریشانی سے دوچار ہوں۔ اپنی پریشانی کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ بتادوں کہ میں صرف سچ لکھتی ہوں۔سچ،جو کہ تلخ اور کڑوا ہو یا پھر شیریں۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں لکھا۔ آج مجھ کو جو پریشانی ہے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ مجھ کو جھوٹ لکھنا ہی پڑے گا۔چلیے میں آپ سے شئیر کرتی ہوں، شاید آپ مجھ کو بہتر مشورہ دیں۔ ارے! آپ مجھ کو بغور کیوں دیکھ رہے ہیں؟میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ آپ تو سراپا سوال ہی بن گئے۔
چلیے میں آپ کو پورا واقعہ سناتی ہوں، اس طرح آپ پر میرے آنسوؤں کا راز کھل جائے گا، کیوں کہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی کی ہوں کہ میں صرف سچ ہی لکھتی ہوں۔
کل ایسا ہؤا کہ میرے شوہر کو شادی میں جانا تھا۔ان کے نہایت عزیز دوست کی شادی تھی۔ میں نے چاہا کہ وہ اپنے ساتھ شازی کو بھی لے جائیں۔ شاہزیب میرے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ہے جس کو ہم پیار سے شازی کہتے ہیں۔ میں نے نہایت عاجزی سے درخواست کی آپ شازی کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ چونکہ ان کا موڈ نہیں تھا لہٰذا ان کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ میں لے کر نہیں جا رہا۔ لیکن بالکل اچانک اور خلاف توقع ان کو غصہ آگیا اور انھوں نے نہایت نازیبا کلمات سے مجھ کو نوازا۔ بس یہیں سے اس کہانی کا آغاز ہوگیا۔ چلیے میں آپ کو کہانی پڑھواتی ہوں۔ سنیے:
روبی طارق سے مخاطب ہوئی’’آپ ذرا منے کو بھی شادی میں لے جائیں، یہ گھر میں اکیلا گھبرائے گا‘‘۔
تم پاگل تو نہیں ہو! “ طارق نے غصے سے اس کو گھورا ” میں شادی میں جا رہا ہوں تم چاہ رہی ہو کہ میں بچہ سنبھالتا رہوں۔ تم گھر ہی پہ ہو شازی کو رکھ سکتی ہو‘‘۔
’’لے جائیں تو کیا ہوا…..؟‘‘ روبی معصومیت سے بولی’’کیا یہ صرف میرا ہی بچہ ہے؟ آپ کا بھی فرض ہے اس کو سنبھالنا‘‘۔
’’یہ کیا منطق ہے!‘‘ طارق کو غصہ آگیا’’ جب بھی مجھے کہیں جانا ہوتا ہےتم بچوں کو پیچھے لگا دیتی ہو۔ تم ہر کام میں اپنی مرضی چلاتی ہو۔ تم چاہتی ہو کہ جو تم چاہو،وہ ہو، تمھاری مرضی چلے اور میں تمھارے پیچھے دم ہلاتا رہوں۔ تمھاری جی حضوری کرتا رہوں‘‘۔
’’اصل میں آپ چاہتے ہیں کہ ہر وقت ننھے کاکے بنے رہیں، جہاں جائیں لوگ آپ کو غیر شادی شدہ سمجھیں ،لڑکیاں مسکرا مسکرا کر آپ کو دیکھیں۔ مائیں آپ پر صدقے واری ہوں‘‘۔ روبی کا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔
’’کیا…..؟‘‘ طارق نے چلا کر کہا۔ آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔’’تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو! تمھاری سوچ کیسی گھٹیا ہے‘‘۔
’’ایسے الفاظ نہ بولنا ‘‘ روبی گرجی’’ ورنہ…..‘‘
’’ورنہ؟‘‘ طارق نے مصنوعی حیرت سے آنکھیں پھیلا کر دیکھا۔
روبی کے انداز میں بے بسی در آئی۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی، پھر منے کو کر دوسرے کمرے میں بند ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ بند ہونے اور گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو روبی کمرے سے باہر نکلی۔ طارق جا چکا تھا۔رو رو کر روبی کی آنکھیں سوج گئیں۔

★جی ہاں قارئین! آپ نے پڑھا کہ کیا زبردست معرکہ ہوا میرا اور میرے شوہر صاحب کا۔ جناب مجازی خدا تو بڑے غصے سے شادی میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے اور ادھر رو رو کر میری آنکھیں سوج گئیں۔ دل چاہ رہا تھا کہ ہر چیز تہس نہس کردوں، ہر چیز توڑ دوں۔ کچھ نہیں کر سکتی تو دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنے آپ کو ختم کرلوں۔ لیکن کیوں کہ اس میں میرا ہی نقصان تھا لہٰذا ایسا کچھ نہیں کیا، بلکہ آنسو صاف کرکے بچوں کو کھانا کھلایا، پھر سلا کر کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی۔
مجھے معلوم تھا کہ اب ایسا شاندار افسانہ تخلیق ہوگا جو مدتوں یاد رکھا جائے گا، کیوں کہ یہ میں دل سے لکھوں گی۔تھوڑا بہت تبدیل کرنا ہی پڑے گا ۔ لہٰذا میرے تو پانچ بچے ہیں اور میری ہیروئن کا ایک ہی بیٹا ہے۔ میرے میکے میں تو کوئی نہیں ہے کہ میں اپنے شوہر سے ناراض ہو کر جاسکوں۔ لیکن میری ہیروئن کا میکہ بڑا مضبوط ہے، پیار کرنے والے ماں باپ،جان چھڑکنے والے بھائی اور محبت کرنے والی بھابھیاں اس کو ہر دم خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن وہ میری ہیروئن ہے لہٰذا اس کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ ناراض ہو کر میکے جا کر بیٹھ جائے، کیوں کہ میں اپنے قارئین کو کوئی ایسا سبق نہیں دینا چاہتی کہ وہ بھی معمولی معمولی باتوں پر اپنے شوہر سے ناراض ہو جائیں اور گھر چھوڑ دیں۔ سوچنا تو یہ ہے کہ اب میری ہیروئن کیا کرے کہ اس کی انا بھی سلامت رہے۔ خود معافی مانگے یا پھر انتظار کرے کہ اس کا شوہر اس کو منالے ۔ آپ میرے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ میں کیس کروں گی، تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں معافی نہیں مانگوں گی۔میرا جب قصور ہی نہیں ہے تو میں کیوں جھکوں؟ ہمیشہ میں ہی جھکتی چلی آئی ہوں، لیکن اس مرتبہ شوہر صاحب کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردوں گی۔
★صبح ہوتی ہے، سورج نکلتا ہےجو اندھیرے کو نگل لیتا ہے۔اسی طرح صبح ہوئی اور میرے نہ جھکنے اور نہ ماننے کے ارادے بھاپ بن کر تحلیل ہوگئے۔آپ حیرت سے مجھے دیکھ رہے ہیں کہ ایسا کیا ہؤا ! چلیے آپ ایک کونے میں چھپ جائیں، میں آپ کو منظر دکھاتی ہوں۔
یہ میرا بیڈروم ہے۔ شوہر صاحب محو استراحت ہیں۔ بیگم صاحبہ بچوں کو اسکول کے لیے تیار کر رہی ہیں۔بچے ہیں کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ خیر بڑی مشکل سے بچوں کو کھینچ کھانچ کر اٹھایا اور تیار کر کے اسکول بھیج دیا۔دل عجیب بجھا بجھا سا ہے کیوں کہ رات کو شوہر صاحب سے جھگڑا ہؤا ہے۔ خیر بچوں کو اسکول بھیج کر اوپر سے دیکھتی ہوں۔ بچے وین میں بیٹھ رہے ہیں۔ اوہو! یہ سب بچوں کے ہاتھ میں پھول کیوں ہیں؟ یاد آیا کہ آج شازی کے اسکول میں ’’بہار ڈے‘‘ منایا جا رہا ہےاور بچوں کو تازہ گلدستہ لے کر جانا تھا۔
ارے اب کیا کروں! اب تو شوہر صاحب کی طرف پیش قدمی کرنی ہی پڑے گی۔ جھکنا ہی پڑے گا۔ ورنہ میرا بچہ اسکول میں پریشان ہوگا۔چلو کوشش کرتی ہوں۔
منہ میں مٹھاس بھر کر بڑے شیریں لہجے میں شوہر صاحب سے درخواست کی کہ’’میں تو بھول ہی گئی تھی کہ آج شازی کو پھول لے کر جانے تھے‘‘۔
’’تو میں کیا کروں! ‘‘روکھا سا جواب آیا۔
’’ وہ آپ ذرا چلے چلیں، قریب ہی نرسری سے خرید کر دے دیں گے ورنہ بچے کا دل برا ہوگا‘‘۔
’’اس وقت مجھے بہت دیر ہو رہی ہے‘‘ شوہر صاحب پریشانی سے بولے’’پہلے یاد رکھا ہوتا‘‘۔
دل اکسا رہا ہے کہ’’ جواب دو…..جواب دو‘‘۔ لیکن دماغ کہہ رہا ہے’’ خاموش…..خاموشی ہی بہتر ہے‘‘۔ خیر گھر سے نکل کر پھول خریدنے سے لے کر بچے تک پہنچانے تک ایک عجیب اعصابی تناؤ نے گھیرے رکھا۔ اب جب گھر واپس آنے لگےتو نہ جانے کہاں سے پیار کے جذبات امڈ امڈ کر آنے لگے۔ آخر یہ میرے شوہر ہیں۔میرے بچوں کے باپ ہیں۔ اگر میں ان کو منالوں اس میں حرج ہی کیا ہے!
دل کڑا کر کےلیے ان کے شانے پر ہاتھ رکھا اور اپنے لہجے میں محبت کی نرمی اور پیاس کی مٹھاس کو سموتے ہوئے کہا’’ آپ ناراض ہیں مجھ سے؟‘‘
خاموشی!

’’اچھا بھئی معافی چاہتی ہوں‘‘۔
پھر خاموشی!
’’ اچھا آپ کو کیسے مناؤں؟کیا گا کر مناؤں؟‘‘
’’ کیا فضول حرکت ہے‘‘ پھر اکتاہٹ سے کہا گیا۔
اب دل بھر بھر کر آرہا ہے۔ آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں، اب پتا چلا! اب سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ افسانے کا کیا اینڈ ہونا چاہیے۔ ہیروئن نے معافی مانگی لیکن پھر بھی شوہر صاحب نہ مانےتو اب بہتر ہے کہ ہیروئن گھر چھوڑ کر چلی جائے۔ ایک ہی اس کا بچہ ہے۔میں تو پانچ بچوں کو لے کر جانے سے رہی، مجھ کو کون برداشت کرے گا! لیکن اب کیا میں اپنی ہیروئن کو گھر چھوڑ کر جانے دوں یا پھر جھوٹ لکھ دوں کہ ہیروئن نے اپنے گھر کی سلامتی کے لیے اپنی انا کی قربانی دی اور صلح ہوگئی۔ اب کیا کروں! خیر اب اس افسانے کو اٹھا کر الماری کی دراز میں ڈالنا ہی پڑے گا کیوں کہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ میں صرف سچ لکھتی ہوں۔
★ارے آپ مجھ کو دیکھ کر حیرت سے اچھل ہی پڑے۔ حیرت کی تو بات ہی ہےکہ آج میں آپ کو بے انتہا خوش دکھائی دے رہی ہوں۔یہ آپ دیکھ رہے ہیں میرے ہاتھ میں پھول ہیں جو کہ دوستی اور محبت کی علامت ہیں۔یہ پھول کہاں سے آئے! ارے نہیں آپ غلط سمجھے، یہ بازار سے میں نے نہیں خریدے بلکہ یہ شوہر صاحب ہی لے کر آئے ہیں۔
لیکن یہ ہؤا کیسے؟ آپ کی حیرت بجا ہے۔چلیے ہے تو راز کی بات لیکن کان میں بتا دیتی ہوں روٹھے کو منانے کی ترکیب، یعنی محبوب آپ کے قدموں میں کیسے آئے گا۔ یہ ایک نادرونایاب نسخہ میں آپ کے نام کرتی ہوں۔خالق کائنات جو کہ دلوں کو جوڑنے والا اور محبت پیدا کرنے والا ہے آپ اس کے آگے اپنا سر رکھ دیں۔ اگر حسب خواہش نتیجہ نہ نکلے تو جو چور کی سزا وہ میری۔
پھر کیا خیال ہے ابھی آزمائیے اور کامیاب ہوجائیے۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x