ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اللہ کا رنگ – بتول جولائی ۲۰۲۱

لوبان کی مسحور کن مہک مہمان خانے سے نکل کر بنگلے کے بیرونی گیٹ سے پار پھیل چکی تھی ۔جمعرات کے روز عقیدت مند خواتین کا جم غفیر ماہ پارہ بانو کا خصوصی درس سننے کے لیے جمع ہو چکا تھا ۔
ماہ پارہ بانو گزشتہ بارہ سال سے اپنے وسیع وعریض بنگلے میں دروس کی محافل سجاتی آ رہی تھیں۔خوش لباس،خوش گفتار اور نفیس ذوق کی حامل ماہ پارہ بانو کو اللہ تعالیٰ نے غضب کی سلاست اور انداز بیان عطا کیا تھا ۔ درس شروع کرتیں تو پورے مجمع پر سناٹا چھا جاتا ۔سیکڑوں احادیث و واقعات انہیں ازبر تھے ۔اپنی شیریں آواز میں جب وہ سیرت رسولﷺ بیان کرتیں تو حاضرین محفل کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔انبیا ء کے قصے ‘ اسلا می تاریخ،حالات حاضرہ الغرض معلومات کا لامحدود خزانہ ان کی یاداشت میں محفوظ تھا اور اپنے دروس میں وہ اس کااستعمال بہت ذہانت سے کرتیں ۔مالی مدد کے علاوہ گرمیوں سردیوں اور عید تہوار پر غریب خواتین کے لیے کپڑے بھی تقسیم کرتیں ۔
ان کےشوہر رضی صاحب معروف رئیل اسٹیٹ کمپنی کے مالک تھے ۔سوجھ بوجھ اور تیز قسمت کی بدولت ان پر چاروں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں کی مثال صادق آتی تھی ۔بڑا بیٹا تنویر اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹاتا تھا ۔اس کی شادی کو دو سال ہو چکے تھے اور وہ ایک بیٹے کا باپ تھا ۔ چھوٹا بیٹا شبیر اور بیٹی نازش یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ۔
’’بھئی میں تو کہتی ہوں اللہ نے ہمیں ماہ پارہ باجی کی صورت میں ہدایت ورہنمائی کا خزانہ دے دیا ہے …..اگریہ نہ ہوتیں تو ہمارا کیا ہوتا…..ہم تو بھٹکتے ہی رہ جاتے ‘‘ ایک عقیدت مند عورت کے الفاظ ماہ پارہ کے کانوں سے ٹکرائے ۔
ماہ پارہ بانو دل ہی دل میں مسکرائی۔
’’ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ….. میں تو جب تک باجی کا درس سن نہیں لیتی کسی کام میں دل نہیں لگتا ‘‘ دوسری عورت نے حامی بھرتے ہوئے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ۔
انجانی مسرت اور تفاخر کے احساس سے ماہ پارہ کا چہرہ دمکنے لگا ۔ گاہے بہ گاہے یہ توصیفی جملے ماہ پارہ کی سماعتوں سے ٹکراتے رہتے تھے۔وہ آہستہ آہستہ ان جملوں کی اسیر ہوتی جا رہی تھیں ۔کوئی خیال دل میں چٹکیاں لینے لگتا۔
’’ٹھیک ہی تو کہتی ہیں یہ سب عورتیں …..اگر میں نہ ہوتی تو انہیں ہدایت نہ ملتی…..اس کے لیے انہیں میرا احسان مند ہی ہونا چاہیے‘‘
’’ کتنی بار سمجھایا ہے کہ ان جاہل عورتوں کو لائونج میں گھسنے نہ دیا کرو …..تم کہاں مر گئ تھیں جب اس دو ٹکے کے بچے نے میرا قیمتی گلدان توڑا تھا ؟ تمہیں اندازہ بھی ہے تمہاری نالائقی کی وجہ سے میرا کتنا نقصان ہؤا ہے ؟ ‘‘
غصے سے لال پیلی ہوتی ماہ پارہ بانو خواتین کے جاتے ہی اپنی ملازمہ رضیہ سے بولیں ۔
آج درس کے دوران ایک بچے کے ہاتھوں جرمن کرسٹل کے نازک اور قیمتی گلدان کے ٹوٹنے پروہ شدید غصے کے عالم میں چلا رہی تھیں ۔
’’ اس نقصان کی بھرپائی میں تمہاری تنخواہ سے کروں گی ….تاکہ کام کے دوران آنکھیں کھلی رکھو۔‘‘
بےچاری رضیہ کیا جواب دیتی۔ اس کے الفاظ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئےتھے۔وہ تو آج اپنی یتیم بچی کی شادی کے لیےکچھ رقم ایڈوانس مانگنے کا سوچ کے آئی تھی ۔

’’کھڑی کھڑی منہ کیا دیکھ رہی ہو …..دفع ہو جاؤ یہاں سے…..‘‘
’’امی جان یہ دیکھیں میں نے کتنے پیارے پرنٹس نکلوائے ہیں …..سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں…..جسے بھی دیں گی وہ دعائیں دے گا ‘‘۔
نازش اور ماہ پارہ مال میں اپنی پسندیدہ برینڈ کے ملبوسات کی دکان پر کھڑی تھیں ۔ رمضان المبارک کی آمد آمد تھی ۔ماہ پارہ اصرار کر کے نازش کو ساتھ لا ئی تھیں تاکہ اپنی خریداری اور ضرورت مندوں کے کپڑوں کی خریداری ایک ہی دن میں نمٹا لیں ۔
’’ارے نازش بیٹی یہاں تو ہم اپنی خریداری کے لیے آئے ہیں…..دینے دلانے والے کپڑے تو ہم سستی مارکیٹ سے خریدیں گےاور ویسے بھی یہ برینڈڈ کپڑے تو امیروں کے ششکے ہیں….. ان غریبوں کو تو صرف تن ڈھانپنے کی فکر ہوتی ہے انہیں ان برینڈز کی ضرورت نہیں‘‘۔
ماہ پارہ نے نازش کے ہاتھوں سے کپڑے واپس رکھتے ہوئےکہا ۔
نازش ماں کی اس بات کو کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔
’’ امی جان ہم تو افورڈ کر سکتے ہیں کہ غریبوں کو بھی مہنگی برینڈ کے کپڑے تحفے میں دیں ‘‘۔
’’ میری بھولی بیٹی دینے کو تو میں دے دوں پر میں نہیں چاہتی کہ جو پرنٹ ہم پہنیں وہی یہ کالونی کی عورتیں بھی پہن کر آ جائیں ‘‘
استقبال رمضان کا روح پرور درس جاری تھا ۔
کشادہ لان عورتوں اور بچوں سے بھرا ہؤا تھا۔ایک جانب راشن کے تھیلے اور انار کلی بازار سے لائے گئے لال پیلے لان کے سوٹوں کا ڈھیر لگا تھا۔ بیشتر خواتین کی توجہ درس سےزیادہ اس سامان پر لگی تھی جسے باجی غریبوں میں تقسیم کرنے والی تھیں ۔
آج رضیہ کی بیٹی کی شادی تھی ۔اپنی چھوٹی سی ایک کمرے کی کٹیا کو بیچ کر وہ اس بھاری فرض کو ادا کرنےکے قابل ہوئی تھی ۔ماہ پارہ بانو کی سخت ہدایت تھی کہ درس کے ختم ہونے تک اسے چھٹی نہیں ملے گی ۔وہ بوجھل دل کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی تھی ۔
ماہ پارہ بانو کا پر اثر بیان جاری تھا۔
’’ روزہ کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے ۔اللہ کی نافرمانی ‘ غصہ اور ناراضگی سے بچنے کی جدوجہد ہی در اصل تقویٰ ہے۔اگر تقویٰ ہوگا تو جبھی ہم آخرت کی کامیابی حاصل کر پائیں گے ۔اس مبارک مہینے کی برکات حاصل کرنے کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کریں ۔پیارے آقا حضرت محمدؐنے فرمایا کہ لونڈی اور غلام اللہ نے تمہارے تصرف میں دے رکھے ہیں تو انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتےہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنو ۔ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالو جو ان کی طاقت سے باہر ہو‘‘۔
اچانک درد کی شدید لہر ماہ پارہ کے سینے میں اٹھی…..سینے پر ہاتھ رکھ کرماہ پارہ جھکتی چلی گئی……حاضرین محفل کی چیخیں نکل گئیں……سب ماہ پارہ کی جانب دوڑے ۔
’’ہائے ہماری پیاری باجی کوکیا ہو گیا …..اللہ خیر کرے !‘‘
’’ہماری باجی کو ہماری عمر لگ جائے‘‘۔
بدحواس،فکر مند روتی چلاتی عورتوں کی آوازیں ماہ پارہ کی سماعتوں سے ٹکرائیں۔ان کی دھڑکن مدہم ہوتی چلی گئی۔اور پھر تاریکی چھا گئ ۔
درختوں کے گھنے سائے ہیں ۔چشموں کے کنارے اونچی مسندوں پر ریشم ودیبا کے دیدہ زیب تخت پوش بچھے ہیں…..مستعد خدام خوان میں طشتریاں سجائے انواع و اقسام کی نعمتیں لیے حکم کے منتظر ہیں ۔
ایک جانب خادم موتی ‘ عقیق زمرد اور جھلملاتے ہیروں سے مزین سونے کے کنگن ہار اور انگشتریاں سجائے کھڑے ہیں،مدھم موسیقی کی دھنوں نے طلسماتی ماحول بنا رکھا ہے……نور ہی نور چہار سو پھیلا ہے۔
ماہ پارہ بانوآنکھیں مل مل کے ان ناقابل یقین حسیں مناظر کو دیکھ رہی ہیں اور سوچ رہی ہیں۔
’’ شاید یہ دلکش جگہ جنت ہے اور مرنے کے بعد مجھے جنت بخش دی گئی ہے‘‘ ۔

شاداں وفرحاں دل کےساتھ اطمینان کا سانس لے کر وہ چہل قدمی کرنے لگیں ۔
اچانک ان کی نظر سامنے تخت پر ریشم و کمخواب کے ہیرے موتی جڑے لباس میں بیٹھی اپنی کام والی رضیہ پر پڑی۔ اس کے دائیں بائیں خادمائیں ہاتھ باندھے اس کے حکم کی منتظر تھیں۔نور کا ہالہ اس کے چہرے کو گھیرے ہوئے تھا ۔ماہ پارہ اس کے شاہانہ انداز کو دیکھ کر حیران تھی ۔اسے یقین نہی آرہا تھا کہ ایک معمولی نوکرانی کیسے اس قدر انعام واکرام کی حقدار ہو گئی ۔
انہی خیالات میں گم تھی کہ جنت کے دو ہرکارے ماہ پارہ کی جانب بڑھے ۔
’’’اے عورت تم یہاں کیا کر رہی ہو …..یہ نیکوں کاروں کی جنت ہے تمہارا یہاں کیا کام ؟‘‘
ماہ پارہ لرز گئی ۔اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا ۔وہ کانپتے الفاظ میں بولی ۔
’’ میں …..میں بھی نیک عورت ہوں …..میں نے ساری عمر اللہ کے دین کی تبلیغ کی…..میں نے غریبوں کی ہمیشہ مدد کی …..میں بھی نیک ہوں!‘‘
وہ ہرکارےپر غصے سے چلائی ۔
’’ تم جھوٹ بول رہی ہو…..تم نے ساری زندگی خود نمائی اور ریاکاری میں گزاری…..کچھ بھی خالص اللہ کی خوشنودی کےلیےنہ کیا ۔ تم نے سب دکھاوا کیا ۔اب بھگتواپنے کرتوتوں کاانجام ۔تمہارا ٹھکانا جہنم ہے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ ماہ پارہ کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر نکالنے لگے۔
ماہ پارہ کا چہرہ خوف سے سفید ہو گیا …..وہ زور زور سے رونے لگی ۔
’’چھوڑ دو مجھے …..معاف کر دو میں توبہ کرتی ہوں…..میں منافقت چھوڑ دوں گی ۔میرے رب ایک موقع دے دے …..مجھے معاف کر دے …..مجھے معاف کر دے ‘‘۔
ڈاکٹروں کی ٹیم نے مایوس ہو کر آخری کوشش کے لیے مریضہ کو الیکٹرک شاک لگانے کا ارادہ کیا ۔ایک …..دو…..تین…..تیزکرنٹ کی لہر ٹرمینل سے نکل کر ماہ پارہ کے دل تک پہنچی اور کوئی معجزہ ہو گیا …. دل نے دھڑکنا شروع کر دیا …..وہ موت کے منہ سے لوٹ آئی۔
ماہ پارہ کے سب اہلِ خانہ سجدہ ٔ شکر بجا لائے ۔
ہسپتال میں موجود ہزاروں عقیدت مند عورتوں نے اسے باجی کی کرامت قرار دیا …..سب کے دلوں میں باجی ماہ پارہ کی عقیدت میں کئ گنا اضافہ ہو چکا تھا ۔ہر کوئی خوش تھا ۔
’’بڑی نیک عورت ہیں ۔اللہ نے ان کی نیکیوں کے بدلے میں انہیں دوسری زندگی بخش دی‘‘ ۔
’’ہماری باجی کی پہنچ بہت اوپر تک ہے‘‘ عقیدت مند خواتین اپنی کرامتی باجی کی تعریف میں زمیں وآسمان کے قلابے ملا رہی تھیں ۔
اندر ہسپتال کے بستر پر نیم بیہوشی کے عالم میں ماہ پارہ بڑ بڑائی ۔
’’ میرا رب بڑا ستار ہے ۔میں ناچیز گناہ گار بندی…..میں سچے دل سے توبہ کرتی ہوں…..میرے رب مجھے ہدایت بخش دے ….میں تیری بندی ہوں مجھے سہارا دے…..مجھے تھام لے…..مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے میرے مالک…..مجھے معاف کر دے‘‘۔
٭ ٭ ٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x