ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تازہ ہوا – بتول فروری ۲۰۲۱

’’ سب تیار ہو جائیں … تیار ہو جائیں … بڑے دادا گاڑی میں جا کر بیٹھ چکے ہیں … نماز کا وقت ہونے والا ہے ‘‘۔
ثمر بلند آواز میں اعلان کرتا ہؤا سیڑھیوںپر دھڑ دھڑکرتا اوپر آ رہا تھا۔
’’ ایک تو یہ بڑے دادا کا چمچہ چین نہیں لینے دیتا ۔ جب دیکھو کان میں گھسا چلا آ رہا ہے ‘‘۔
روشی اپنی ننھی سامعہ کو تیار کرتے ہوئے جھنجھلا رہی تھی ۔’’ کب سے کہہ رہی ہوں حامد ! کہ آپ بھی تیار ہو جائیں ‘‘۔ اب اس کا غصہ اپنے شوہر حامد پر الٹ پڑا۔
’’ سو کام ہوتے ہیں جان کو آئے اور بڑے دادا سیر سپاٹے کا حکم دے کر بڑے ٹھستے سے خود فوراً گاڑی میں جا بیٹھے ہیں ‘‘۔
روشینہ جسے پیار سے سب روشی کہتے تھے اب منہ پھیلائے الٹے سیدھے ہاتھ اپنے بالوں کو درست کرنے میں لگا رہی تھی ۔ حامد نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ چہرے پر زیادہ لالی اچھی نہیں لگتی تمہیں ارے بھئی کب سے بچے فیصل مسجد جانے کا کہہ رہے تھے ۔ اچھا ہے نا ! جمعہ کی نماز کے بعد سیر بھی ہو جائے گی ۔ بڑے بھیا اور بھابھی کب سے تیار کھڑے ہیں ۔ ایک تمہیں ہی کیوں مشکل پڑ گئی…‘‘
’’ہاں ہاں … بڑے بھیا کیوں نہ تیار ہو چکے ہوں گے ۔ ان لوگوں کو آرام کے سوا کام ہی کیا ہے … سارا کچھ تو مجھ ناتواں ہی کو کرنا ہوتا ہے … پکنک کا نام تو بچوں اور اُن کے لیے ہے … ہمارے لیے تو اُلٹا کام کی زیادتی … بیس عدد آلو بھرے پراٹھے اور یہ بڑے بڑے چائے کے تھرماس بنانا ہوتے تو لگ پتا جاتا ‘‘۔روشی نے کچھ مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا ۔
اب خفا خفا سی سکارف باندھ کر چلنا شروع کیا ۔ سامعہ حامد کی گود میں تھی ۔ حامد ہلکا سا ہنس کر کہنے لگے۔
’’کیوں اجر ضائع کرتی ہو ۔ اب کام کر تو چکی ہو سب کچھ ۔ تم خود ہی تو کہتی ہو کہ یہ محض سب کی خوشی کے لیے نہیں ہے صرف اس کی خاطرنا!‘‘’’ ہاں یہ تو ہے ‘‘روشی جیسے ٹھنڈی پڑ گئی ۔’’ کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں ‘‘۔
چلو پھر ہنس کے دکھائو ۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں ‘‘۔
’’ اچھا اچھا!‘‘ اس کے لب تھوڑی دیر کے لیے پھیلے اور حامد نے اطمینان کا سانس لے کر بڑے دادا کی کھنکتی آواز کا جواب دیا جو نجانے کب سے ان لوگوں کو پکار رہے تھے ۔
’’ آرہے ہیں … بڑے دادا … ہم آ رہے ہیں …‘‘
سب گاڑی میں ٹھنس کر بیٹھ گئے تھے ۔ آگے ثمراور دادا ، پیچھے روشی اور حامد کے درمیان گڑیا ، مانو اور حمزہ تھے ۔ بڑے بھیا ، بھابھی ، بوا اور ننھی ہنیہ سمیت اپنی ہنڈا سٹی میں جا بیٹھے ۔ مگر جب تک بڑے دادا کی گاڑی نہ چلتی بڑے بھیا کی مجال نہ تھی کہ اپنے قافلے سمیت روانہ ہوں۔
’’ چلو بھئی اب سٹارٹ کرو‘‘ بڑے دادا نے ثمر کو حکم صادر کیا اور یوں یہ سارا قافلہ گلابی جاڑے کے موسم کا لطف اٹھاتا اسلام آباد روانہ ہؤا۔ فیصل مسجد پہنچ کر حسب معمول سبھی نے بچوں کی چیخ و پکار کو دھونس دھمکی اور ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے قابو کیا اور اپنی اپنی ٹولیوں سمیت زنانہ اور مردانہ حصے کی سمت چل پڑے ۔ روشینہ کو اسی لیے تو غصہ تھا ۔ اب ننھی سامعہ اور گڑیا مانو کے ہوتے ہوئے نماز کا کیا خاک مزا تھا ۔
فیصل مسجد کی انتظامیہ نے اندر کی سمت قدم بڑھاتی خواتین کو چیک کیا ۔ ’’ چھوٹے بچوں والی خواتین باہر صحن میں ہی رک جائیں ‘‘ کا بورڈ لگا تھا ۔ باہر کی صفوں پر نماز اتنا بھی کچھ مشکل کام نہ تھا ۔ لائن میں بے حد خوب صورتی سے جائے نماز و قالین بچھے تھے ۔بھابھی کی ہنیہ ابھی چھوٹی تھی لہٰذا صرف بوا ہی اندر تک رسائی کر سکیں ابھی تو شکر ہے حمزہ بارہ سال کا تھا لہٰذا حامد ، بڑے بھیا ، ثمر اور بڑے دادا سمیت مردانہ حصے میں جا چکا تھا ۔ سامعہ کو گھر سے لایا ہؤا کھلونا دے کر جائے نماز پر اپنے سامنے بٹھایا ۔ جماعت شروع ہونے والی تھی ۔ روشینہ نے تحیۃ المسجد کے نوافل کی نیت باندھ لی ۔ بھابھی نے ہنیہ اور سامعہ کی ذمہ داری سنبھال لی تو یہ دو نفل روشی نے سکون سے ادا کر لیے مگر گڑیا اور مانو نے مسجدکے چِکنے چمک دار فرش کو کھیل کا میدان سمجھ کر دوڑ بھا گ شروع کر دی ۔ اُن کی شفاف آنکھوں میں خوشیوں کا سمندر ہلکورے لے رہا تھا ۔ انہیں یہ تو پہ تھا یہاں نماز پڑھنا ہوتی ہے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ مسجد کے صحن میں کھیلنا منع ہے ۔ بھابھی نے کوشش بھی کہ ان کے چھوٹے چھوٹے سکارف کس کر انہیں صف میں بٹھا لیں مگر دونوں نے اپنے ننھے منے ہاتھ اٹھا کر جلدی سے اللہ میاں سے دعا مانگ لی تاکہ پھر کھیلنے میں مصروف ہو سکیں ۔ انہیں پتا تھا کہ نماز کے ختم ہوتے ہی بڑے دادا انہیں چڑیا گھر اور جاپانی پارک کی سیر کر انے جائیں گے ۔ اسی لیے تو انہیں فیصل مسجد بہت پسند تھی ۔ بڑے دادا کی بدولت ان کے ننھے منے ذہنوں میں ’’ فیصل مسجد‘‘ جانے کا مطلب خوشی کا دن ہوتا تھا ۔
با جماعت نماز کے دوران سامعہ تو خاموشی سے کھیلتی رہی مگر ہنیہ نے گلا پھاڑ کر جو رونا شرو ع کیا تو بمشکل ہی بھابھی نے توجہ کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز ختم ہوتے ہی سب گاڑیوں کی طرف روانہ ہوئے ۔
اب سارے بچے بڑے دادا کے گرد جمع تھے ۔ بمشکل پھر ان کو گاڑیوں میں ٹھونسا اور چڑیا گھر کی سیر کو چلے جہاں جاتے ہی کھانے پینے کا سلسلہ شروع ہونا تھا ۔
بڑے دادا باہر کے کھانے حتیٰ کہ چپس اور آئس کریم کو بھی پسند نہیں کرتے تھے لہٰذا بچوں کی ساری فرمائشیں اور خواہشات بڑے دادا کے ڈر سے اپنے ماں باپ تک پہنچتے ہی دم توڑ دیتی تھیں ۔
’’ خبر دار ! منہ سے ایک لفظ بھی نکالا تو …‘‘ روشی نے گڑیا کو ڈانٹ پلائی بڑے دادا کا پتہ ہے نا؟ چپ کر کے یہ آلو کا پراٹھا چٹنی کے ساتھ کھائو ‘‘۔
مگر دل ہی دل میں سخت اضطراب کروٹیں لے رہا تھا ۔
’’ لو ، کیا تھا جو پیپسی یا مرنڈا کی فیملی سائز بوتلیں ہی لے لیتے … حامد ۔ بھی بس دبو ہی ہیں ۔ ایک دفعہ بھی نہیں کہیں گے کہ ابا اب نیا وقت آگیا ہے بچوں کی سو فرمائشیں ہوتی ہیں ۔ کوئی ایک تو پوری کرنا چاہیے نا !‘‘ وہ کلس رہی تھی ۔
اُدھر درخت کی چھائوں میں بچھی چٹائی پر کھانے کے لیے بسم اللہ پڑھتے ہی بڑے دادا کا لیکچر شروع ہو چکا تھا ۔
’’ الحمد للہ کہو… گھر کا صاف ستھرا خوش ذائقہ کھانا کھا رہے ہو… یہ بازار کے کولڈرنکس ، چپس ، چاٹ ، برگروغیرہ سب ہیپاٹائٹس پیدا کرتے ہیں ۔ گندے غلیظ ہاتھوں کے بنے ہوتے ہیں ۔ تم لوگ کیا جانو… پھر ایک بار اللہ کا شکرادا کرو روشی بیٹی کے ہاتھ میں ذائقہ بھی بہت ہے …‘‘
سب نے مارے بندھے ہی سہی واقعتا اللہ کا شکر ادا کیا ۔ بھوک تو چمک ہی اٹھی تھی ۔ آلو بھرے پراٹھے ، بھاپ اڑاتی چائے کے ساتھ مزہ ہی تو دے گئے ۔ سب بچوں نے اور کچھ بڑوں نے مجبوراً ہی سہی ادھر اُدھر کی چٹ پٹی چیزوں کی خواہش اپنے سینوں ہی میں گھونٹ لی ۔
’’ پکنک کا مزہ تو بس مل جل کر سیر کرنے میں ہی ہے ‘‘ واپسی پر بڑے بھیا بھی اظہار خیال فرماتے رہے ۔
روشی کے سینے سے ٹھنڈی آہ نکلی… نجانے کب اسی گھٹی فضا سے تازہ ہوا ملے گی …!

٭…٭…٭

موسم نے انگڑائی لی ۔ بدلتا موسم اپنے تیور دکھا رہا تھا ۔ فضا میں خنکی بڑھ چکی تھی ۔ صبح شام صحن میں آنے والی دھوپ اب بہت ٹھنڈی اور مدھم لگتی تھی ۔ برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھ کر سبزی کاٹتے کاٹتے روشی کو نجانے کیا خیال آیا۔
’’ سامعہ ابھی سوئی ہوئی ہے باقی بچے تو سکول سے دیر سے آئیں گے کیوں نہ لگے ہاتھوں بھاری گرم کپڑوں کو دھوپ لگوا لوں ؟‘‘
اس سوچ نے اس کے جسم میں پھرتی بھر دی ۔ فوراً مدد گار شاہدہ کو برتنوں کے کام سے روک کر سٹور میں بڑی پیٹی کھولی بوا نے بھی مدد کروائی ۔ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں روشی نے سارے کمبل ، اور لحاف دھوپ میں پھیلا دیے ۔ اسی دوران ایک دو چھینکیں آئیں تو روشی نے بچوں کے کپڑوں کو پھیلانے کا کام ملتوی کر دیا ۔ غسل کر کے کپڑے تبدیل کیے ۔ سالن بھون کر رکھا ۔ روٹی پکانے کے دوران گلے میں کچھ خراش محسوس ہوئی مگر اس نے توجہ نہ دی ۔ بچوں کے سکول سے آنے پر کھانا کھا اور کھلا کر فراغت ہوئی تو کچھ چکر سے محسوس ہوئے ۔ شام ہوتے ہوتے جسم ٹوٹنے لگا ۔ ماتھے کو ہاتھ لگایا تو بخار محسوس ہؤا نماز پڑھ کر بستر پر لیٹی تو بے سدھ ہو چکی تھی ۔ رات کو حامد کے آنے پر اٹھنا چاہا تو اٹھا ہی نہیں گیا ۔
حامد نے دیکھا تو گھبرا گیا ۔ اسے تسلی دی بوا کو بلا لایا بڑی بھابھی تو میکے گئی ہوئی تھیں بوا نے کچن سنبھال ہی لیا تھا ۔
’’ اب حامد کے کھانے کی فکر مت کرو ‘‘۔ بوا نے پینا ڈول کی گولی ہاتھ میںتھمائی اور سہارا دے کر خود اٹھایا۔ ساری رات بوا اور حامد سونہ سکے۔ صبح پوٹھنے سے پہلے کہیں بخار کا زور ٹوٹا اور روشی کو اپنی سدھ بدھ نہ رہی ۔
آنکھ کھلی تو کمزوری محسوس ہو رہی تھی حامد تو دفتر جا چکے تھے ۔ بوا پائنتی سے لگ کر سو رہی تھی ۔ روشی کا ذہن تانا بانا بنتا رہا ۔
’’ بھابھی تو میکے میں ہیں … بڑے بھیا اور بڑے دادا کو تو توفیق نہ ہوئی ہوگی …ہونہہ! انہیں کیا خبر اپنے سوا ‘‘۔
دروازے پر ہلکا سکا کھٹا ہؤا۔ روشی پوری جان سے متوجہ ہوئی ۔ ’’آجائیے ! ‘‘ نامعلوم کون ہے اس وقت ، اس نے سوچا ۔ دروازہ کھلا تو روشی بستر سے اٹھنے لگی۔
’’ آ… آپ پ… بڑے دادا …؟‘‘
’’ ارے لیٹی رہو بیٹا آرام کرو‘‘
روشی کی حیرت کی انتہا نہ تھی ، بڑے دادا کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں رکھے بڑے سے بائول میں گرم گرم سوپ سے بھاپ اٹھ رہی تھی ۔ اشتہا انگیز مہک چاروں طرف پھیل گئی ۔ بڑے دادا کے چہرے پر پھیلا تفکر اس کے لیے تھا مگر ساتھ ہی ساتھ محبت و شفقت کی روشنی بھی پھوٹ رہی تھی ۔ روشی دنگ ہی تو رہ گئی۔
’’ میں نے گڑیا اور مانو کو ناشتہ بنا کر تیار کر کے سکول بھیج دیا تھا ‘‘۔ بڑے دادا اپنے لرزتے ہاتھوں سے اس کی طرف سوپ بڑھاتے ہوئے بولے۔
’’ یہ لو بہو شاباش… اور دیکھو ہم بوڑے ہو کر بھی اتنے بے ہنر نہیں ہوئے …بوا کی تھکن کا بھی تو احساس تھا نا … مگر روشی بیٹا تم بالکل پروا نہ کرو ۔ ٹھیک بھی ہو جائو نا تو کم از کم تین دن بستر سے پائو ں نہ اتارنا ۔ کیا ہؤا جو تمہاری ساس ( مرحومہ ) نہ رہیں ‘‘۔
روشی ان کی اس گفتگو کے درمیان شرمندگی اور ندامت کے عرق میں ڈوب چکی تھی۔
’’ خالص مرغی کا سوپ بلکہ یخنی ہے ۔ بھئی ہم تو آج کل کے بازاری کیوب وغیرہ کو نہیں مانتے ۔ ثمر سے کہہ کر خصوصاً تمہارے لیے دیسی مرغی منگوائی تھی ہر گزبازار سے کچھ نہ منگا کر کھانا پینا‘‘۔ بڑے دادا کا مخصوص لیکچر اور ان کا انداز و لہجہ حسب معمول تھا ، مگر روشی کو آج اپنے اندر کچھ مختلف محسوس ہو رہا تھا ۔
’’ ہم نے تمہاری آپا ( نند) کو فون کر کے بلوا لیا ہے ۔ وہ آکر باقی کام کاج سنبھال لیں گی ۔ لہٰذا فکر مکوا( فکر نہ کرو) …‘‘
بڑے دادا کامخصوص جملہ روشی کے کانوں میں رس گھول رہا تھا اور وہ مزے سے سوپ پیتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔ ہمیشہ کی گھٹی گھٹی فضا آج کتنی کھلی کھلی خوش گوار اور روشن محسوس ہو رہی تھی ۔ ساری بات محسوسات کی ہے … سوچ کی ہے … بد گما نیوں کے سیاہ بادل چھٹ جائیں تو اُجالا ہر گوشے کو منور کر دیتا ہے ۔
اُدھر بوا خفگی سے کہہ رہی تھیں ۔
’’ بڑے میاں ہمیں کہا ہوتا ہم بہو کے لیے خود بنا لاتے ‘‘۔ بڑے دادا نے مجال ہے جو ٹرے بھی انہیں واپس لے جانے دی ہو ۔
’’ کیوں ؟ تو کیا ہم اجر سے محروم رہتے ؟‘‘
بڑے دادا کی کھنکتی آواز آج کانوں کو کتنی بھلی لگ رہی تھی نا!

فرحت نعیمہ

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
4.5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x