ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

وضونماز کی کنجی – بتول فروری ۲۰۲۱

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نماز ہر بالغ مسلمان مرد وزن پر فرض ہے اور اگر بات ہو نماز کی تو وضو کا ذکر لازمی آتا ہے ۔ نماز کے لیے وضو ایک تیاری ہے یعنی مسلمان اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے پہلے خود کو صاف اور پاک کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ
’’ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ( البقرہ: 222)۔

عام حالات میں وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اسی لیے وضو کو نماز کی کنجی کہا گیا ہے ۔حدیث میں ہے کہ:

’’ جنّت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی وضو ہے‘‘( احمد : 575)۔

نماز کے لیے وضو کی اہمیت کو اس حدیث سے بھی سمجھا جا سکتا ہےکہ آپ ؐ نے فرمایا ’’ بےشک اللہ تعالیٰ وضو کے بغیر نماز کو اور خیانت کے مال سے صدقہ کو قبول نہیں کرتا‘‘ (احمد3445)۔ وضو کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ اس عمل کی فضیلت اور افادیت کے بارے میں معلوم ہو تاکہ اسے بہترین اندازمیں کرنے سے ہم دنیاوی فوائد کے علاوہ آخروی فائدے بھی اٹھا سکیں۔
وضو کےلغوی معنی
وضو ،الوضاء سے ہے جس کے معنی ہیں حسن و جمال، نظافت( صفائی) اور رونق۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دن میں کئی مرتبہ دہرائے جانے والایہ عمل جہاں انسان کو صاف ستھرا رہنے میں مددگار ہو تا ہے وہیں اسے حسن و جمال بخشتا ہے ۔ آجکل لوگ اور خاص طور پر خواتین اپنے چہرے کو حسین بنانے کے لیے کیا کیا جتن کرتی ہیں ۔ دنیا بھر میں خوبصوتی سے متعلق مصنوعات کا اربو ں ڈالرز کا بزنس روزانہ ہوتا ہے اور چہرے کی خوبصوتی بڑھانے کے لیے خوب پیسہ ، محنت اور وقت لگایا جاتا ہےجبکہ یہ چند منٹوں کا چھوٹا سا مفت عمل انسان کے چہرے کو وہ خوبصورتی، نور اور رونق بخشتا ہے جو کسی اور طریقے سے ممکن نہیں ۔ آزمائش شرط ہے۔
وضو کے اصطلاحی معنی
اصطلاح میں وضو سے مراد پاکیزہ پانی کو ان جسمانی اعضا پر استعمال کرنا ہےجن کی وضاحت اور مشروعیت اللہ نے فرمائی۔ نماز سے پہلے کامل وضو کرنے کا طریقہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھا دیا ہے جیسا کہ ارشادہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھولو‘‘(المائدہ :6) ۔
وَضو یا وُضو
لفظ وضو کا تلفظ بھی درست سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب لفظ وَضُو میں وَ پر زبر استعمال ہو تو اس سے مراد وہ پانی ہے جس سے وُضُو کیا جاتا ہے جبکہ وُ پر پیش سے مراد دراصل وُضُو کرنے کا عمل ہے۔تو ان الفاظ کو بھی درست معنی میں استعمال کرنا ضروری ہے۔
وضو کی فضیلت
وضو ایک ایسا عمل ہے جس کی اہمیت سے شاید کئی لوگ لاعلم ہوں حالانکہ اس کی فضیلت و فوائد انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں ملتے ہیں۔ انہی میں سے چند ایک کا ذکر ہم یہاں کررہے ہیں۔
وضو نصف ایمان ہے
حدیث میں آپ ؐکا فرمان ہے کہ ’’کا مل وضو کرنا آدھا ایمان ہے‘‘ (نسائی 2439) ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ؐ اپنے اصحاب کو کامل وضو کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے کہ ’’آپؐ نے ہمیں اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا ہے‘‘ (بخاری: 460)۔
قیامت کے دن وضو کے اعضاکا چمکنا: وضو امت ِمحمدیہ کی نشانی ہے اس اعتبار سے کہ قیامت کے دن اس امت کے ان تمام لوگوں کے چہرے اور وضو کے اعضا چمک رہے ہوں گے جو دنیا میں رہتے ہوئے کامل وضو کا اہتمام کرتے تھے۔ اس بات کا ہمیں حدیث سے پتہ چلتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا : ’’میرا حوض مقامِ عدن سے لے کر ایلہ تک کے فاصلہ سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کا پانی برف سے زیادہ سفید، شہد ملے دودھ سے زیادہ میٹھا اور اس کے برتنوں کی تعداد ستاروں سے زیادہ ہے۔ میں دوسرے لوگوں کو اس حوض سے اس طرح روکوں گا جیسے کوئی شخص اپنے حوض سے پرائے اونٹوں کو روکتا ہے۔ صحابہؓ کرام نے عرض کی، یا رسول اللہؐ ! آپ ہمیں اس دن پہچان لیں گے؟ فرمایا ، ہاں تم میں ایک ایسی علامت ہے جو دوسری کسی امت میں نہیں ہوگی۔ تم جس وقت حوض پر میرے پاس آؤ گےتو تمہارے چہرے اور پاؤں آثارِ وضو کی وجہ سے سفید اور چمک دار ہوں گے ‘‘ (مسلم( ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سےایک اور جگہ مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ، ’’قیامت کے دن تم اس حال میں اٹھو گے کہ تمہارا چہرہ اور ہاتھ، پاؤں وضو کرنے کی وجہ سے سفید اور چمک رہے ہوں گے، لہٰذا جو شخص تم میں سے طاقت رکھتا ہو وہ اپنے ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کی سفیدی اور چمک کو زیادہ کرے۔‘‘ (مسلم)۔ اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے حضرت ابو ہریرہؓ وضو کرتے ہوئے اپنے اعضاء وضو کو بہترین انداز میں دھوتے اور اکثر اس میں مبالغہ بھی کر جاتے تھے۔ ان احادیث سے ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ کامل وضو صرف دنیا ہی میں ہمارے چہرے کی رونق بڑھانے کا ذریعہ نہیں بلکہ آخرت میں انشااللہ ایسے لوگوں کے چہرے چمک رہے ہوں گے۔
جنّت میں لے جانے والا عمل
ایک بہت ہی مشہور حدیث سے وضو کی فضیلت اور بھی اجاگر ہوتی ہے اور ہم سب کو ہر وقت با وضو رہنے پر ابھارتی ہے اور جب انسان وضو کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتا ہے جسے عرفِ عام میں تحیۃ الوضو کہا جاتا ہے تو اس کا بڑا اجر معلوم ہوتا ہے۔ حضرت برید ہؓبیان کرتے ہیں کہ ’’ایک صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو بلایا اور فرمایا کہ اےبلال !کس عمل کی وجہ سے تم گزشتہ رات جنت میں میرے آگے آگے چل رہے تھے، میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی۔حضرت بلالؓ نے فرمایا ، یارسول اللہؐ !میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہوں اور جب بھی میرا وضوٹوٹ جاتا ہے تو میں اسی وقت وضو کر لیتا ہوں۔حضور اکرم ؐ نے فرمایا،اسی وجہ سےہر وقت باوضو رہنے والاشخص طہارت کی بہترین حالت میں ہوتا ہے‘‘۔ (الصحیحین)۔
گناہوں کو دھودینے والا عمل
انسان دن بھر میں جانے انجانے میں گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر شرمندہ بھی ہوتا ہے۔ ان گناہوں سے چھٹکار ا پانے کا بہترین اور آسان ترین طریقہ وضو ہے کیونکہ وضوگناہوں کو دھو ڈالتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ؐنے فرمایا ، ’’جب کوئی مومن وضو کرتا ہے تو جس وقت چہرہ دھوتا ہے تو جیسے ہی چہرے سے پانی گرتا ہے، یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنی آنکھوں سے کیے تھے۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو جیسے ہی ہاتھوں سے پانی کے قطرے گرتے ہیں یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے ہاتھوں سے کیے تھے اور جب وہ اپنے پاؤں کو دھوتا ہے تو جیسے ہی اس کے پاؤں سے پانی گرتا ہے یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنے پاؤں سے کیے تھے، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے‘‘(مسلم)۔
یہ حدیث بڑی طمانیت بخشنے والی ہے اور ہمیں ایسی حوصلہ افزا اور مایوسی سے بچنے والی احادیث کو دوسروں سے ضرور شیئر کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی نہ صرف اپنے وضو کو بہتر کریں بلکہ اس کی وجہ سے گناہوں کے بوجھ سے بھی خود کو آزاد کر سکیں۔
درجات کی بلندی کا ذریعہ
اکثر موسم کی شدت مثلاً سخت سردی میں یا کسی اور بنا پر وضو کرنے میں تکلیف ہوتی ہو اور ایک بوجھ سا محسوس ہوتا ہو اور انسان ایسی ناگوار صورت حال میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوشدلی سے کامل وضو کرتا ہے تو یہ عمل انسان کے درجات کی بلندی کا سبب بنتا ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا،’’کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جس سے اللہ تعالیٰ خطائیں مٹادیتا اور درجے بلند کرتا ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسولؐ اللہ ضرور بتلائیے آپ ؐنے فرمایا : مشقتوں کے باوجود کامل وضو کرنا ، مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھانا ، نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا ، پس یہی رباط (محاذ جنگ میں پڑاؤ) ہے، پس یہی رباط ہے، پس یہی رباط ہے‘‘(مسلم219) ۔
فرشتوں کی دعائیں لینے کا ذریعہ
ہم میں سے کون ایسا شخص ہوگا جسے دعاؤں کی ضرورت نہ ہو اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ با وضو سونا فرشتوں کی دعاؤں کا ذریعہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا،’’ جو آدمی باوضو رات گزارتا ہے، ایک فرشتہ اسکے بستر میں رات گزارتا ہے۔ جب وہ شخص رات کی کسی گھڑی میں بیدار ہوتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے، اے اللہ اپنے فلاں بندے کو بخش دے کیونکہ اس نے طہارت کی حالت میں رات گزاری‘‘ (سلسلہ صحیحہ)۔ ہو سکتا ہے کہ سردیوں میں یہ عمل مشکل معلوم ہو لیکن گرمی میں ایسا کرنا بڑا باعثِ سکون ہوگا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ نمازِ عشا کے فوراً بعد سونے کی عادت ڈالی جائے۔ اس طرح باوضو سونا آسان ہوگا۔
ظاہری اور باطنی نجاستوں سے نجات
وضو انسان کی ظاہری اور باطنی نجاستوں کو دور کر کے اسے بہت سی ذہنی اور روحانی پریشانیوں سے نجات دلانے کا طریقہ ہے مثلاً اگر غم اور اداسی میں وضو کیا جائے تو کافی حد تک غم کم محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح غصے کی حالت میں بھی وضو کرنا فائدہ مند ہے، حدیث میں بھی غصے کے وقت وضو کرنے کی تاکید ملتی ہے ۔ وضوکے اعضا کو دن میں کئی مرتبہ دھونا تمام دھول مٹی کو صاف کر کے انسان کو ہشاش بشاش کرتا ہے۔
کامل وضو کا طریقہ
وضو کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ کی آیت 6 میں بتا دیا ہے اور نبیؐ نے اسے عملاً کر کے اپنے ساتھیوں کو دکھایا۔ یہاں وضو کا مسنون طریقہ مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لیے پانی منگوایا ، پہلے اپنی ہتھیلیاں تین مرتبہ دھوئیں، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنا منہ تین مرتبہ دھویا۔ اس کے بعد اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا، اسی طرح بایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر سر کا مسح کیا ۔ مسح کے بعد اپنا دایاں پاؤں ٹخنے تک تین مرتبہ دھویا اور اسی طرح اپنا بایاں پاؤں ٹخنے تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر فرمایا،’’میں نے رسول اللہ ؐکو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے‘‘ (مسلم ) ۔یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ سر کے مسح کے ساتھ کانوں کا مسح بھی ضروری ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ نبیؐ نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں سے کانوں کے اندر اور اپنے دونوں انگوٹھوں سے دونوں کانوں کے باہر کے حصے کا مسح کیا‘‘(نسائی)۔
وضو کے اعضا کو ایک باریا دو بار یا تین بار دھونا جائز ہے
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ؐ نے وضو کرتے ہوئے ایک ایک مرتبہ اعضا دھوئے (متفق علیہ)۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ؐنے وضو کیا اور دو، دو مرتبہ اعضا دھوئے(بخاری)۔ تین مرتبہ اعضا دھونے کی حدیث پہلے بتائی گئی ہے جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اعضا کو تین تین مرتبہ دھویا۔ تین مرتبہ سے زیادہ دھونے کو اسراف کہا گیا ہے۔
مسواک کرنا
آپ ؐ نے ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا،’’ اگر مجھے امت کی تکلیف کا احساس نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا‘‘( راوہ ُاحمد)۔
پانی کے استعمال میں احتیاط
آپؐ وضو کے لئے ایک مد(نصف لیٹر یا کچھ زیادہ) پانی استعمال کرتے اور نہانے کے لئے ایک صاع یا پانچ مد (تقریباً3 سے 5 لیٹر ) پانی استعمال کرتے تھے (بخاری)۔آپ ؐ کا فرمان ہے ،’’ پانی ضائع نہ کرو چاہے تم دریا کے کنارے وضو کر رہے ہو” (ترمذی) ۔
ہاتھ ،پاؤں کی انگلیوں اور داڑھی کا خلال کرنا مسنون ہے
حضرت لقیط بن صبر ہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا،’’ وضو اچھی طرح کرو، ہاتھ پاؤں کی انگلیوں میں خلال کرو اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک میں پانی اچھی طرح چڑھاؤ‘‘(ترمذی) ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ؐوضو کرتے ہوئے داڑھی کا خلال کرتے تھے۔
وضو کے بعد دعا پڑھنا بھی مسنون ہے
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا،’’ اگر کوئی شخص مکمل وضو کرنے کے بعد یہ دعا پڑھ لے ، اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ، اُس کے لئے جنّت کے آٹھوں درواز ے کھول دیے جاتے ہیں، جس سے چاہے اندر داخِل ہو‘‘(مسلم)۔
تیمّم
وضو کے موضوع پر بات ہو تو تیمّم کا جاننا بھی ضروری ہے۔ تیمّم کا لغوی معنی ’’قصد اور ارادہ‘‘ کرنا ہے۔ شرعی اصطلاح میں تیمّم سے مراد پا نی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی سے چہرے اور کہنیوں سمیت بازوؤں پر ہاتھ پھیرنا ہے۔ دونوں ہاتھ مٹی والی جگہ پر مار کر پہلے چہرے پر اور پھر دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیر لینے سے تیمّم مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ،
’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمّم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کر لو‘‘(المائدہ : 6)۔
حدیث بھی اس کی وضاحت کرتی ہے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے نبی ؐ نے ایک کام سے بھیجا ۔ مجھے احتلام ہوگیا اور پانی نہ ملا۔ میں تیمّم کرنے کے لئے زمین پر جانوروں کی طرح لوٹا جب نبیؐ کے پاس واپس آیا اور اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا، ” تجھے اپنے ہاتھ سے اسطرح کرلینا کافی تھا۔ پھر آپ ؐنے اپنے دونوں ہاتھ ایک مرتبہ زمین پر مارے اور بائیں ہاتھ کو دائیں پر مارا اس کے بعد آپ ؐنے ہتھیلیوں کی پشت اور منہ پر مسح کر لیا(مسلم)۔
وضو یا غسل یا وضو اور غسل دونوں کے لیے ایک ہی تیمّم کا فی ہے
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے جنگِ سلاسل پر بھیجا گیا تو راستے میں احتلام ہو گیا۔ رات شدید سردی تھی ، غسل کرنے سے ہلاکت کا خوف تھا، چنانچہ میں نے تیمّم کر کے صبح کی نماز پڑھا دی جب ہم رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ؐکو بتایا گیا ، آپ ؐ نے فرمایا’’ اے عمرو! تم نے حالتِ جنابت میں لوگوں کو نماز پڑھا دی‘‘ میں نے عرض کیا،’’ مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی‘‘ لوگو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اللہ تم پر بڑا ہی مہربان ہے(النساء: 29)’’ اور میں نے تیمّم کر کے نماز پڑھا دی‘‘۔ یہ سن کر آپ ؐ مسکرا دیے اور کچھ نہ فرمایا (ابوداؤد)۔
شدید سردی کے علاوہ ایسی بیماری جس میں پانی کے استعمال سے مرض کے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو اس میں بھی تیمّم کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور وضو جیسے عمل سے نہ صرف پاک و صاف رہنے کے طریقے سکھا ئے بلکہ اس عمل کو ہماری آخرت کے لیے بھی نفع بخش بنا دیا۔
نوٹ:
اس مضمون کی تیاری میں حی علی الصلاۃ کورس کی وضو پر منعقد کلاس سے مدد لی گئی ہے۔ اس کورس کی ٹیچر ڈاکٹر فرحت ہاشمی ہیں اور اسےدورانِ لاک ڈاؤن مس نیلوفر جمیل اور ان کی ٹیم نے الہدی کی کراچی برانچ سے زوم پر صرف خواتین کے لیے منعقد کیا تھا۔ اسکے علاوہ جناب محمد اقبال کیلانی صاحب کی کتاب،’’طہارت کے مسائل‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

نیلوفر انور

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x