ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

فرض – نور مارچ ۲۰۲۱

عید کا دن ہے ہر طرف گہما گہمی ہے۔چھوٹے بڑے سب خوش نظر آ رہے ہیں۔ بچوں نے رنگ برنگے کپڑے پہن رکھے ہیں اور وہ بازاروں میں گھوم پھر کےعید کا لطف اٹھا رہے ہیں۔بازاروں میں جگہ جگہ دکانیں سجی ہوئی ہیں لوگ ان دکانوں سے مختلف اشیاخریدنے میں مصروف ہیں۔سب اپنے آپ میں مگن ہیں۔لیکن ایک گھر ایسا بھی ہے جہاں کوئی نہیں ہے۔در و دیوار پہ سناٹا چھایا ہوا ہے۔ایک چھوٹا بچہ حسرت و یاس کی تصویر بنا گھر کے باہر دروازے پہ کھڑا ہر آنے جانے والے کو امید بھری نگاہوں سے تکے جا رہا ہے۔اس کے بدن پہ پھٹے پرانے کپڑے ہیں۔پائوں ننگے ہیں اور جیب خالی۔بچوں کو نئے نئے کپڑے پہنے دیکھ کے اس کا دل کڑھتا ہےکہ یہ سب کچھ اس کے پاس کیوں نہیں ہے؟کیا عید کی خوشیاں صرف ان بچوں کے لیے ہی ہیں؟ پھر وہ سوچتا ہے کہ مجھے یہ چیزیں کون لے کر دے گا؟میرا اس دنیا میں کون ہے؟میں تو بالکل اکیلا ہوں۔ میرے والدین تو فوت ہو چکے ہیں۔ دوسرے بچوں کو اپنے والدین کے ساتھ دیکھ کر اس کے معصوم ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ مجھے پیار کیوں نہیں کرتے؟کیا میں ان کے بچوں کے جیسا نہیں ہوں؟مجھے بھی اچھے اچھے کپڑے پہننے کا شوق ہے۔میں بھی دوسروں کی طرح عید کی خوشیاں منانا چاہتا ہوں مگر کوئی مجھے اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کوتیار ہی نہیں۔فرط جذبات سے اس کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکل پڑے۔رونے کے دوران ہی وہ گویا کوئی اہم فیصلہ کر چکا تھا۔ وہ بےاختیار آگے بڑھا اور ایک آدمی کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔بھوک و افلاس اور حالات نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا تھا وہ بھیک مانگ کر اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتا تھا۔
ساتھیو !کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ملک کاہر مجبور اور بےسہارا بچہ بھیک مانگنا شروع کر دے؟۔یقینا نہیں۔ تو پھراگر آپ کے آس پاس ایسا کوئی بےسہارا بچہ ہے،تو اس کی مدد کرنا اور اسے اپنی خوشیوں میں شریک کرنا آپ کا اخلاقی فرض ہے۔

محمد رمضان شاکر

٭ ٭ ٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x