ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پانی اتر گیا – مارچ ۲۰۲۱

آج تو کوئی معجزہ ہی سکینہ کو بچا سکتا تھا ۔ڈر کے مارے سکینہ کا رنگ فق ہو چکا تھا ۔زیبو کاغصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھاــ\۔بھائیوں کی اکلوتی لاڈلی بہن زیبو کی من پسند تلّے موتی کے کام والی قمیض دامن سے بری طرح پھٹی ہوئی تھی اور سکینہ کی بد قسمتی یہ تھی کہ پچھلے روز دھو کر اس نے ہی چھت پر پھیلائی تھی اور آج جب اسے تار سے اتارا گیا تو وہ اس حال میں ملی اور بس سکینہ ہی مجرم ٹھہری۔
فیصل آباد کے نواحی گاؤں میں مقیم فضل دین کا گھرانہ ایک کاشتکار گھرانہ تھا ۔کچھ ایکڑ زرعی زمین ان کی ملکیت میں تھی جس پریہ محنت کش گھرانہ کپاس گندم اور دیگر اناج کاشت کرتے اور گزر اوقات اچھے سے ہوجاتی تھی ۔
اوپر تلے چاربیٹوں کی پیدائش ہوئی تو فضل دین اور اس کی بیوی صغریٰ چاچی نے ربّ کا شکر اداکیا کہ کھیت کھلیان پر ہاتھ بٹانے والے ہاتھ مل گئے ۔ زیبو کی صورت میں اللہ کی رحمت پا کر دونوں نہال ہو گئے ۔
زیبو کی پیدائش کے بعد فضل دین کی قسمت کا تارا یوں چمکا کہ چاروں جانب سے دولت برسنے لگی ۔قدرت کی کرم نوازی سے اس کی کاشت کی فصلوں کی پیداوار بہترین اور بار آور ہوتی گئیں ہر فصل اعلیٰ اور عمدہ اترتی قصبے کی بڑی غّلہ منڈی میں خوب اچھے بھاؤ پر بک جاتیں ۔ فضل دین نے سمجھداری سے کام لیا اور پیسے بے دریغ خرچ کرنے کے بجائے جمع کیے اور مزید زرعی اراضی خریدنی شروع کر دی۔
محنت اور لگن رنگ لائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاصی معقول زرعی زمین کا مالک بن چکا تھا اور اب اس کا شمار خوشحال کاشت کاروں میں ہونےلگا ۔
سارا گاؤ ں اس خوش حالی کو زیبوکی پیدائش کی خوش بختی سے تعبیر کرتا تھا۔زیبو سب کی آنکھ کا تارا تھی ۔صغراں چاچی بھی بیٹوں سے زیادہ اپنی لاڈلی بیٹی کو چاہتی۔ فضل دین عید کے موقع پر سب سے زیادہ عیدی زیبو کے ہاتھ پر رکھتا اور جب فصل کی کٹائی ہوتی تو سب سے پہلے زیبو کے ہاتھوں سے درانتی لگوائی جاتی اس کے بعد کٹائی شروع ہوتی….سب سےپہلے فصلوں سے آئے اناج کو زیبو کے ہاتھوں سے مزارعوں میں تقسیم کروایا جاتا ۔
گاؤں کی اکلوتی منیاری والی دکان پر جب کرمو چاچا قصبے کے بازار سےنیا سامان لاتے تو سب سےپہلے زیبو اپنے من پسند جھمکے چوڑیاں اور پراندے خریدتی اس کے بعد کہیں جاکر انہیں کسی اور کو اپنا مال بیچنے کی اجازت ہوتی ۔
اسی لاڈ پیار میں دن گزرتے گئے اور زیبو کی ضد اور خود پسندی بڑھتی چلی گئی ۔ سب بچے بڑے ہو گئے ۔
فضل دین کے بڑے لڑکے کمال دین کو اپنی پھوپھی کی بیٹی سکینہ بچپن ہی سے پسند تھی ۔سکینہ کو اس کی ماں نے گھر گھرہستی کے سارے گُرسکھا رکھے تھے ۔خانہ داری سے لے کر کشیدہ کاری تک سب میں وہ طاق تھی ۔اللہ نے اچھی صورت کے ساتھ عقل و زھانت سے بھی نوازا تھا ۔ صغراں چاچی نے بیٹے کی نبض پہچان لی اور نند کے گھر بیٹے کا رشتہ لے کرپہنچ گئی۔رشتہ طے ہو ٔا اور پھر دھوم دھام سے سکینہ اپنے ماموں کے گھربیاہ کرآ گئی ۔
کمال دین تو پہلے ہی اس پرفدا تھا شادی کے بعد اپنے سلیقے اور عقل سے سب کے دل بھی جیت لیے ۔چھوٹے دیور تو بھابھی کے ہاتھوں کے پکے مزے مزے کے کھانے کھا کر اچھی بھابھی ،سوہنی بھابھی کی گردان کرتے نہ تھکتے تھے ۔صبح سویرے ہی گوالا کھیتوں پر بنے اپنے باڑے کی ناگوری بھینسوں کا گاڑھا دودھ سب سے پہلے فضل دین کے گھر پہنچاتا ۔سکینہ اس تازہ دودھ کو مٹی کے مٹکے میں ڈال کر لکڑی کی مدانی سے بلوہتی اور جھاگ دار لسی بناتی اور اس کے مکھن سے سوندھی خوشبو والے لچھے دار پراٹھے بناتی ۔یہ اس تازہ مکھن کا کمال تھا یا پھر سکینہ کے ہاتھوں کاجادوکہ کمال دین ایک کی جگہ تین پراٹھے چٹ کرجاتا اسے یوں بے صبروں کی طرح کھاتے دیکھ کر سکینہ مسکراتی رہتی ۔۔
فضل دین منہ اندھیرے ہی اپنے بیٹوں کے ساتھ زمینوں پر پہنچ جاتا….ہرےبھرے کھیت اور ٹیوب ویل سے چھپ چھپ بہتا پانی اللہ کی دی ہو ئی نعمتیں تھیں ۔جن کا شکر فضل دین اٹھتے بیٹھتے ادا کرتا ۔زند گی بہت پرسکون چل رہی تھی ۔ہر کوئی خوش تھا ۔بس ایک زیبو ہی تھی جو ناخوش تھی ۔ اسے ہمیشہ سب سے صرف اپنی ہی تعریف سننے کی جو عادت تھی اب سب کے سب سکینہ کے گن گا رہے تھے ۔ حالانکہ سکینہ تو زیبو سے بہت پیار کرتی اس کے سارے کام جھٹ پٹ کر دیتی ۔ پر کہتے ہیں نا کہ حسد سے عقل گل ہو جاتی ہے تو زیبو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہؤ ا ۔
اسے سکینہ کے پکائے ہر کھانے میں کوئی نہ کوئی نقص دکھتا ، اور کیے ہوئے ہر کام میں جھول۔کبھی کھانے میں نمک زیادہ ہوتا اور کبھی لسی میں چینی زیادہ ہوتی ….سکینہ لاکھ کوشش کرتی پر کچھ نہ کچھ الٹا ہو جاتا ۔
اس دن بھی یہی ہؤا زیبو کی قمیض کیا پھٹی اس نے پورا گھر سر پر اٹھا لیا ۔کمال دین کے گھرمیں قدم رکھتے ہی زیبو نے سکینہ کی نالائقی کا حال نمک مرچ لگا کر سنایا اور بے چاری سکینہ کو بے قصور ہوتے ہوئے بھی ڈھیروں کھری کھوٹی سننی پڑیں ۔
ایک روز جب سکینہ اچانک باورچی خانے کسی کام سے گئی تو زیبو کو ہنڈیا میں نمک ملاتے ہوئے دیکھ لیا ۔زیبو کی توجان ہی نکل گئی ۔پر سکینہ نے کسی سے کچھ نہ کہا کیونکہ اسے سچ مچ اپنی اکلوتی نند زیبو سے بے حد پیار تھا ۔وہ اسے مناسب موقع دیکھ کر سمجھانے کا سوچ رہی تھی ۔ اسے یہ جان کر بہت دکھ ہؤا کہ زیبو محض حسد کی وجہ سے سب گھر والوں کو پریشانی میں ڈال رہی ہے ۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے زیبو کو یقین دلائے کہ وہ اس کی خیر خواہ ہے۔
اللہ نے اس کی دعائیں سن لیں اور قدرت نے سکینہ کی پریشانی دور کرنے کا بیڑا اپنے سر اٹھا لیا ۔
برسات کا موسم شروع ہوچکا تھا ۔ اس سال معمول سے زیادہ بارشیں ہو رہیں تھیں ۔تین روز سے تو مسلسل چھاجوں پانی برس رہاتھا ۔ لگتاتھا کہ یہ بارش اب کبھی نہ تھمے گی ۔پورا گائوں جل تھل تھا ۔سب فکر مند تھے کیونکہ گندم کی فصل کٹائی کے لیے تیار کھڑی تھی اور زیادہ بارش سے پوری فصل تباہ ہوسکتی تھی ۔گائوں کے گھر گھر میں دعائیں اور استغفار کی جارہی تھیں ۔بچے بوڑھے اور جوان سب ہاتھ اٹھائے اللہ سے خیر کی دعائیں مانگ رہے تھے ۔
اچانک سے خبرآئی کہ گائوں کے ساتھ بہنے والی نہر کے بند میں شگاف پڑگیا ہے اور پانی تیزی سے گائوں کی جانب بڑھ رہاہے ۔ہر طرف بھگدڑ مچ گئی ۔سب اپنے بال بچوں کی جان بچانے کے لیے دوڑے ۔مال مویشی سب کچھ پیچھے ہی چھوڑ چھاڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر میں لگ گئے ۔ پورا گائوں خالی ہاتھ اپنے پیاروں کے ہمراہ اونچی، ٹیلے پر بنی مسجد کی طرف لپکے ۔
ابھی آدھے افراد بھی نہ پہنچے تھے کہ پانی کا تیز بہائو گائوں میں داخل ہو گیا ۔سب کے ہوش اڑ گئے کیونکہ منٹوں میں ہی پانی نے سب فصلوں کو ڈبو دیا اور گھروں میں داخل ہو گیا ۔
فضل دین خوشحالی کے باوجود اپنے آبائی گھر ہی میں رہائش پذیر تھا کیونکہ اسے اپنے والدین کا محبت سے تعمیر کیا گھر کسی بھی حویلی سے زیادہ عزیز تھا ۔ بیٹوں کے اصرار کے باوجود اس نے نئی اور بہتر جگہ منتقل ہونا ضروری نہ سمجھا ۔جب پانی نشیبی آبادیوں میں پہنچا تو فضل دین اورصغراں چاچی بھی اپنے خاندان کے ساتھ پانی میں گھرگئے ۔ جلدی جلدی نکلے اور ٹیلے والی مسجد کا رخ کیا۔پانی کے ریلے زوردار تھے مگرانہوں نے ہمت نہ ہاری اور آگے بڑھتے رہے ۔اچانک زیبو کا پائوں پھسل گیا اور اس کےپاؤں میں بری طرح چوٹ لگ گئی ۔اس سے چلا نہیں جا رہا تھا ۔بارش اور پانی کے شور میں کسی کوپتا نہ چلا اور زیبو پیچھےرہ گئی۔سکینہ اور زیبو آگے پیچھے ہی چل رہی تھیں ۔کچھ ہی دیر میں سکینہ کو زیبو کی کمی محسوس ہو گئی ۔اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی پر زیبو نہ دکھی ۔
سب تیزی سےآگے جا چکے تھے کیونکہ ذرا سی ہی دیر کی صورت میں جان خطرے میں آجاتی ۔سکینہ نے کمالے کو زور زور سے آوازیں لگائیں پر چاروں طرف شور وغل سے اس کی آواز دب گئی اور کمال دین بھی بےدھیانی میں آگے نکل گیا ۔اب جو بھی کرنا تھا اسے خود ہی کرنا تھا ۔اس نے فوراً واپس جا کر زیبو کو ڈھونڈھنے کا فیصلہ کر لیا ۔چاروں جانب چیخ و پکار اور تاحد نگاہ پانی دیکھ کر وہ بہت ڈر رہی تھی ۔پر اس نے ہمت نہ ہاری اور زیبو کی تلاش جاری رکھی ۔
آخر کار زیبو اسے کسی درخت کے پاس درد سے کراہتی دکھائی دی۔سکینہ کا دل تڑپ اٹھا۔وہ دوڑ کر زیبو کےپاس گئی ۔اسےسہارے سےاٹھایا اور اپنے کندھے کے سہارے لے کر چل دی ۔ چوٹ کی وجہ سے وہ بے حد آہستہ چل رہی تھیں ۔ پانی ان کی کمر تک پہنچ چکا تھا ۔
مسجد میں کمالہ اپنی بیوی اور بہن کو تلاش کر رہا تھا ۔لیکن وہ اسے کہیں دکھائی نہ دیں ۔ہرکوئی دعائیں کر رہا تھا کہ دونوں لڑکیاں مل جائیں ۔اتنے میں سکینہ زیبو کو کمر پر اٹھائے ٹیلے پر پہنچ گئی ۔
سب انہیں باحفاظت مسجد آتا دیکھ کر خوشی سے چلانے لگے ۔مگر زیبو….اس کی تو نگاہیں مستقل جھکی ہوئی تھیں۔سب اس کے پاؤں کی موچ پر پریشان ہو کر اس کی دلجوئی کررہے تھے مگر اس کا دل سکینہ کا غلام ہو چکا تھا۔ پاؤں میں اٹھتی درد کی لہریں اپنی نادانی اور کم عقلی پرشرمساری سے زیادہ تکلیف دہ توہرگز نہ تھیں۔
دو دن مزید موسلا دھار بارش ہوئی ۔اس کے بعد آسمان صاف ہو گیا اور سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ آہستہ آہستہ پانی بھی اتر گیا سب اپنے گھروں کو لوٹ آئے ۔مال مویشی سب بہہ چکے تھے پر سب شکر گزار تھے کہ کسی کا جانی نقصان نہیں ہؤا ہے ۔سارا گاؤں نئے سرے سے مکان بنانے اور فصلوں کی زمین تیار کرنے لگ گیا ۔ باہمت گاؤں والوں کو اللہ کی رحمت پر پورا بھروسا تھا کہ اگر وہ پوری محنت اور جفاکشی سے کام لیں گے تو ایک بار پھر سے سوہنا رب انہیں نوازے گا اور خوش حالی پھر سے لوٹ آئےگی ۔
صغراں چاچی بھی اپنی بہو اوربیٹی کے ساتھ گھر کی صفا ئی اوردھلائی میں جت گئیں ۔مگر اب یہ کوئی نیا ہی گھر تھا جہاں کھوئی ہوئی خوشیاں تو پھرسے لوٹ ہی آئی تھیں، ساتھ محبت اور خلوص کی فصل لہلہا رہی تھی۔پانی اتر گیا مگرخوشیوں بھرے راستے دلوں سے دلوں تک ہموار کرگیا۔

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 2 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Lubna Habib
Lubna Habib
3 years ago

سبق آموز کہانی ہے الل پاک ہم سب کے دلوں میں خلوص ڈالے اور نیکی کی توفیق دیں آمین

عشرت زاہد
عشرت زاہد
3 years ago

ماشا اللہ بہت اچھی کہانی۔۔ دلچسپ بھی اور سبق آموز بھی۔۔

2
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x