ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

حوصلہ – بتول نومبر۲۰۲۰

فاطمہ نے نماز شروع کی ہی تھی کہ اس کے شوہر نے اس کے پیچھے سے آکرکرسی گھسیٹ لی ۔ اگرچہ کرسی پلاسٹک کی تھی مگر اُسے اندازہ ہوگیا کہ کرسی گھسیٹ لی گئی ہے۔
وہ رکوع سے سیدھی ہوئی دوقدم پیچھے ہٹی اورکرسی پر بیٹھ کر دونوں سجدے کر کے اگلی رکعت کے لیے کھڑی ہوگئی ۔ رکوع میں گئی تو پھر کرسی گھسیٹ لی۔اُسے اندازہ ہو گیا کہ اب وہ بہت دورچلی گئی ہے۔
اُس کی توجہ نماز میں کم اورکرسی میں زیادہ تھی ، اب کیا کروں کتنا چلوں؟ نہ چلوں توکیا کروں؟
سجدہ زمین پرکرلوں توپھراُٹھوں کیسے اورتین رکعت بھی ابھی باقی تھیں۔
پھر اُس نے فیصلہ کیا ، رکوع سے کچھ اور زیادہ جھکتی ہوں اور سجدہ ایک اورپھردوسرا کرلیتی ہوں۔
سجدہ کرکے اُس نے تشہد مکمل کی اورسیدھی کھڑی ہو گئی ۔ سورۃ فاتحہ شروع کی تھی کہ تھپڑوں اورمکوں کی بارش شروع ہوگئی۔
اب کیا کروں ؟ پھر ایک سوال تھا ۔ نماز مکمل کروں یا تیسری رکعت تھی اُس نے سوچا نماز مکمل کر لیتی ہوں ۔پھروہیںکھڑے کھڑے رکوع کے بعد سجدے و تشہد اورساتھ ایک طرف بائیں جانب کندھے کمرمار سہتے رہے۔
فاطمہ کے سلام پھیر نے سے پہلے اس کے شوہر کمرے میں جا کربسترپرلیٹ چکے تھے ۔وہ عادتاً کم گو تھے ۔ بہت ضروری بات کرتے ۔ زیادہ کام چہرے کے تاثرات ، آنکھوں ، ہوں یا ہاں سے لیتے اور جب سے بیمار ہوئے گفتگو بالکل کم کردی ۔ کئی سوال پوچھو توکسی کے جواب میں گردن ہلا دی گئی تو مافی الضمیر واضح ہو گیا۔
فاطمہ اکثر ان کو چھیڑا کرتی تھی کہ آپ کے کراماً کا تبین توصاف صفحے لے کر اللہ کے پاس حاضرہوں گے اورہمارے کراماً کا تبین بے چارے ایک بات کو تین تین بارلکھ کرپیش کریں گے کہ ایک بار میں تو جواب ملتا نہیں ۔
اُس نے جائے نماز تہہ کیا ۔ کندھا سہلایا اورپیچھے پیچھے کمرے میں جا کرپلنگ کی پائنتی کی طرف رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔
اُس کے شوہر اسی کی طرف دیکھ رہے تھے ۔نہ جانے کیا ہؤا ، فاطمہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکی بات کرنے کا حوصلہ نہ تھا ۔بس سسکیاں تھیں جو آہستہ آہستہ بلند ہوتی جا رہی تھیں ۔ حالانکہ پہلے کبھی ایسانہ ہؤا تھا کہ یوں مار پیٹ پررد عمل ظاہر کرے۔
سردیوں کی رات تھی۔ بیٹی کا کمرہ ذرا دور تھا ۔ بہو سامنے والے کمرے میں تھی ، گو اس کا دروازہ بھی بند تھا ۔ بیٹا توبیرون ملک تھا ۔ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی کہ کسی نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا ۔ اُس نے آنسوئوں سے ترچہرے سے اوپردیکھا تواس کی بہو کھڑی تھی۔آہستہ سے کہنے لگی، امی جی پانی پی لیں ۔
فاطمہ نے پانی کا گلاس پکڑ لیا ۔ مگر حلق بھی ایسے تھا کہ کچھ پھنساہؤا ہے ، پانی بھی نہیں نگلا جائے گا۔
تھوڑی دیر کے بعد اُس کی بیٹی بھی ، بہو کے ساتھ کھڑی تھی ۔ اسے خودکو کچھ سمجھ نہ آیا ، کیا ماجرہ ہے ، جا کرنند کو اٹھا لائی۔گلاس فاطمہ کے ہاتھ میں تھا ۔ بہو اوربیٹی پاس کھڑی تھیں سامنے اُس کے شوہر لیٹے ہوئے تھے اور اُس کی سسکیاں جاری تھیں ، جو اب بیٹی کو دیکھ کر ، پہلے سے اونچی ہو گئی تھیں کیا ہؤا امی؟
وہ سوتے سے اٹھ کر آئی تھی ۔ بھابھی نے بتایا کہ امی بہت بری طرح رو رہی ہیں۔
امی کیا ہؤا بتائیں تو سہی ۔ کیسی تکلیف ہے ؟ درد ہو رہا ہے ۔ دل گھبرا رہا ہے ۔
اُس نے جھٹ کئی سوال کردیے ۔ پھر وہ پاس بیٹھ گئی بازو گردن میں حمائل کر دیے ۔پانی کا گلاس ماں کے ہاتھ سے پکڑا اور ماں کے منہ کو لگایا۔
پانی پئیں۔تھوڑا سا پی لیں ۔اُس نے زبردستی پانی کا آدھا گلاس پلا دیا ۔بہو ٹشو پیپر لے آئی ۔ بیٹی نے ٹشوپیپر سے آنسو پونچھے ۔ ذرا حوصلہ ہؤا تو بہو، BPاپریٹس لے آئی تھی۔ اس نے بی پی چیک کرنا شروع کیا توماں نے بھی سر بیٹی کے کندھے پر ٹیک دیا آنسو کی بھی آج ایسی جمنا بہی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔شکر ہے بی پی تو ٹھیک ہے ۔
بیٹی نے چمکا رتے ہوئے پوچھا۔ بتائیں تو سہی ہؤا کیاہے ؟ آپ نے توپریشان کردیا ہے۔
ماں نے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کیا۔ بیٹی نے پوچھا۔ کیا ؟ فاطمہ نے دیکھا اُس کے شوہر اس ساری واردات کودیکھ رہے تھے۔ بالکل لا تعلق ۔کوئی تاثرات نہیں۔ کوئی تاسف کا شائبہ نہیں ،کوئی لفظ اظہار شرمندگی کا نہیں ۔
جی جی ۔ ابوجی تو ٹھیک لگ رہے ہیں۔
آپ کیوں اتنا پریشان ہوتی ہیں ۔ پھر موٹے موٹے ، رکتے رکتے ، چھوٹے چھوٹے جملوں میں اُس نے گزشتہ نصف گھنٹے کی ہونے والی واردات بیان کر ہی دی۔
اچھا ۔ وہ میرا کندھا اورکمرسہلانے لگی۔ بہو بھی بیٹھ گئی ۔ اس نے اپنے باپ کو مخاطب کیا ۔ ابو جی کیا بات ہوئی ، بہو نے بھی ساتھ دیا ، ابوجی ، کوئی مسئلہ تھا ؟ مگروہاں توایک خاموشی تھی ۔نگاہیںادھر اُدھر ہی مرکوز تھیں مگر نہ تاثرنہ لفظ۔
امی ۔ امی ۔ جیسے اسے بھی بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے ۔ابو بیمار ہیں نا امی ۔ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے ۔ مریض تومریض ہوتا ہے نا اوران جیسے مریض تو ایسابہت کچھ کرتے ہیں ۔ آ پ شکرکریں اس سے بڑا کوئی کام بھی ہوسکتا تھا ۔ آپ توسمجھتی ہیں نا ساری بات ۔ بہو بھی کچھ نہ کچھ کہتی رہی۔
فاطمہ خاموشی سے سنتی رہی پھرجیسے اُسے قرارآگیا ۔ وہ ہنس پڑی،ہاں پتہ نہیں ۔ آج مجھے کیا ہؤا ۔ حوصلہ چھوٹا کیوں ہو گیا۔
میرا خیال ہے بس شیطان آگیا اوراپنا آپ بہت بے بس اور بے چارا لگا ۔ بس پھردل بھر گیا تم دونوں کو بھی پریشان کیا۔
سوتے میں جگادیا ۔ اچھا جائو ، جا کرسوجائوبس میں ٹھیک ہوں ۔ رب کا پھربھی شکرہے اس سے زیادہ مسائل بھی ہو سکتے ہیں تم نے ٹھیک کہا ۔ بیٹی پھر باپ کے پاس بیڈ پرجا بیٹھی ابوجی آج آپ نے امی کو بہت پریشان کیا یہی توآپ کا خیال رکھتی ہیں ، آپ کے سارے کام کرتی ہیں ، آپ کے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی ہیں کہیں آپ کوچھوڑ کرجاتی نہیں ہیں آپ امی کے ساتھ ایسا تو نہ کریں نا۔
ٹھیک ہے کیا کہتے۔
اگر امی خفا ہوگئیں تو آپ کے لیے بڑی مشکل ہو گی بلکہ ہم سب کے لیے بہت مشکل ہو گی ۔
اُن کی آنکھیں اب بیٹی کے چہرے پرمرتکز تھیں ۔ تاثرات سے عاری چہرہ۔
پھر انہوں نے ہولے سے سرہلایا اور آنکھیں موند لیں ۔ ٹھیک ہے ۔ امی ابو جی آئندہ انشاء اللہ ایسے نہیں کریں گے۔
وہ بیڈ سے اتری ، ماں کو بیڈ پر لٹایا ۔ بہو نے سسر پرچادرڈالی تو بیٹی نے ماں کوکمبل اڑھایا اور اُسے پیار کیا۔
بھابھی کا ہاتھ پکڑا اوردونوں دروازے سے نکل گئیں۔
اس نے آنکھیں موند لی تھیں مگرنیند کی وادی میں گھومتی گھومتی مدینہ جا پہنچی۔
وہ ائیرپورٹ پاکستان روانگی کے لیے بیٹھے تھے ، لائونج میں بیٹھ کرکھانا کھایا، فاطمہ نے چائے منگوالی اور اس کے شوہر اٹھ کر ادائیگی کرنے کے لیے چلے گئے ۔ واپسی پر کافی دیرہو گئی توفاطمہ کوکچھ پریشانی ہوئی کہ اتنے میں سامنے سے آتے دکھائی دیے۔ ان کے ہاتھ میں دو بڑے بڑے اعلیٰ کھجوروں کے خوبصورت پیکنگ والے ڈبے تھے۔
’’ آپ کہاں رہ گئے تھے ؟ میں کب سے آپ کی راہ تک رہی ہوں ‘‘۔
انہوں نے سنی ان سنی کر دی اورجلدی جلدی ہینڈ کیری میں ان ڈبوں کو رکھنے لگے ۔یہ کیا ہے ؟ کھجوریں ، وہ بولے ۔
’’ بہت زیادہ اعلیٰ اورمہنگی ہیں ‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’ ہاں وہ تو ان کی پیکنگ سے ہی پتہ چل رہا ہے ۔ کتنے کی ہیں ‘‘۔
’’ چھ ہزار کی‘‘۔
’’ مگرآپ کے پاس تو اتنے پیسے نہیں تھے ‘‘۔ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔
فاطمہ کویاد آیا۔ راستے میں آتے ہوئے ، اس نے بھی یہ شاپ دیکھی تھی ۔ دکاندار کوئی نہیں تھا ، قیمتیں درج تھیں اور بہت زیادہ تھیں کیا یہ بغیر ادائیگی کے کھجوریں اٹھا لائے ہیں ؟اس خیال سے اس کو جھر جھری سی آگئی ۔ مگر قرائن یہی کہہ رہے تھے ۔
جہازکی روانگی کا اعلان ہو گیا ۔ اس کے شوہر نے کہا:’’ میں جلدی سے واش روم سے ہوکر آجاتا ہوں ‘‘۔ اورچلے گئے ۔
فاطمہ کا حال تو یوں تھا جیسے کاٹو توبدن میں لہو نہیں ۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ ڈبے اٹھائے گئے ہیں ۔ وہ اپنے شوہر سے ایسے کردار کی بالکل توقع نہیں رکھتی تھی کہ33سالہ ساتھ میں کبھی ایسا شائبہ بھی نہیں ہؤا تھا اور پھر اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا ۔کہ کسی اور نے تو نہیں دیکھا۔ پھر اسے یوں لگا کہ دکان والا تو نہیں آگیااور پھر خدشات بڑھتے گئے اگراعلان ہو گیا اورچیکنگ والوں نے ڈبے پہچان لیے تو ،تو۔
اس کا سرچکرا رہا تھا ۔ مگر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ ڈبے واپس رکھ کر آئے گی۔اس نے انتہائی سرعت کے ساتھ ڈبے ، اپنے سامان سے نکالے اورتیز تیز قدم اٹھاتی دکان کی طرف چل پڑی۔
اللہ کا شکرکہ دکان پر دکاندار نہیں تھا وگرنہ تواورمشکل ہوتی ۔ اس نے ڈبے رکھے اوربھاگتی ہوئی بغیر ادھر اُدھر دیکھتے، اپنے سامان کے پاس پہنچ گئی۔ یہ بھی اللہ کی مدد ہوئی کہ اس کے شوہر ابھی واپس نہیں آئے تھے۔
اس نے ہینڈ کیری کی کھلی ہوئی زپ بند کی۔پرس پکڑا اورکھڑی ہو گئی ۔ آخری انائوسمنٹ ہو رہی تھی کہ اس کے شوہر دوڑتے ہوئے آئے ۔ ’’ چلیں چلیں دیر ہو گئی‘‘۔ وہ خود ہی بولتے چلے جا رہے تھے ۔وہ سکیورٹی چیک سے گزر کر ، جہاز میں داخل ہو گئے۔
وہ اپنی نشست پر بیٹھ چکی تھی، مگر اس کو اپنے دل کی دھڑکن ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔ ہینڈ کیری کوسامان والے خانے میںرکھ کر اس کے شوہر بھی ساتھ بیٹھ چکے تھے۔
ایک مرحلہ توگزرا۔ وہ مطمئن تھی کہ وہ ڈبے واپس رکھ آئی تھی۔
اگلا مرحلہ بھی اس کے لیے سوہان روح تھا کہ جا کر جب سامان کھلے گا اورڈبے نہیں نکلیں گے تووہ کیا وضاحت دے گی ۔ اس کو کچھ نہیں سوجھ رہا تھا ۔ مگر پریشانی بہت تھی ۔
وقت تو رکتا نہیں گھر پہنچ گئے ، سامان کھل گیا ،تحائف تقسیم ہو گئے وہ خود حیران تھی کہ اس کے شوہر کووہ ڈبے بالکل یاد نہیں تھے نہ انہوں نے پوچھا نہ ذکر کیا اور پھر کئی بار ایسا ہؤا کبھی بغیر پیکنگ کے کوئی نئی چیز آگئی ۔ ہوٹل رہائش کے بعد واپس آئے تو کچھ چھوٹی موٹی چیزیں ، سامان میںرکھی ہوتیں ۔ یہ سب کچھ نیا تھا ۔ انوکھا تھا اوراس شخص کا یہ کردار جومال دونوں ہاتھوں سے لٹاتا تھا ضرورت مندوں پربھی ، دوست احباب اوررشتہ داروں کوبھی نوازتا تھا۔
پھر وقت کے ساتھ اورکئی علامات ظاہرہونے لگیں۔جوشخصیت کاحصہ نہیں تھیں ۔ اور وہ ان دماغی امراض کی علامات میں سے تھیں ۔ جن کی کوئی متعین تصویر بھی نہیں بلکہ ذہنی مرض کی علامتوں کے اس مجموعے کوڈاکٹر صاحبان ’’ڈیمنیشیا‘‘ کا عنوان دے کر تشخیص مکمل کردیتے کہ دماغی امراض میں سے ایک ہے وجہ مکمل طور پر معلوم نہیں ہے۔ علاج بھی ، کوشش تو ہے مگر یقین دہانی نہیں کروا سکتے ۔ ہوسکتا ہے کہ بہتری آجائے مگر مکمل صحت مند ہو جائیں شاید ایسا نہیںہوگا۔آپ کوکچھ چیزوں کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا دوائیاں دیتے ہیں پھر بدلیں گے ۔ آہستہ آہستہ۔
فاطمہ کبھی کبھی تھک سی جاتی اورپھر اپنے آپ کو خود ہی بہلاتی رہتی کہ یہ رب کے ڈالے ہوئے امتحان ہیں ۔وہ خود ہی حساب کتاب رکھ رہا ہے ۔ وہ جو کرتا ہے ۔بندے کے لیے بہتر ہی ہوتاہے ۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x