ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قرآن کی اثر انگیزی – بتول دسمبر ۲۰۲۰

قرآن جس زبان میں نازل ہؤا ہے اس کے ادب کا وہ بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہؤا نہیں ہے۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہؤا ہے اور ہر مرتبہ پیرایۂ بیان نیا ہے۔ اول سے لے کر آخر تک ساری کتاب میں الفاظ کی نشست ایسی ہے جیسے نگینے تراش تراش کر جڑے گئے ہوں۔ کلام اتنا اثر انگیز ہے کہ کوئی زبان دان آدمی اسے سن کر سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتاحتیٰ کہ منکر و مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے۔ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی تھی۔ جس نے بجلی کے کڑکے کی طرح عرب کی ساری زمین ہلا دی تھی جس کی قوت تاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالف تک مانتے تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا بالآخر نقد دل ہار بیٹھے گا۔
اس لیے کفار قریش نے نبی کریمؐ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے جہاں اور بہت سی چالیں چلیں وہاں اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا کہ آپ جو کلام وحی لے کر آئے تھے وہ لوگ سننے نہ پائیں۔ یہی بات قرآن کریم میں اس طرح بیان کی گئی:
’’یہ منکرین حق کہتے ہیں، اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو ، شاید کہ اس طرح تم غالب آجائو‘‘۔(حم سجدہ۲۶)
لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹانے کے لیے کفار مکہ نے ایک اور تدبیر بھی کی جس کا سورہ لقمان میں اس طرح ذکر ہے:
’’اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو لہو الحدیث (کلام دلفریب) خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔‘‘(لقمان۶)
لہو الحدیث کا مطلب ہے خرافات، ہنسی مذاق، گانا بجانا، فحش افسانے اور ناول، داستانیں قصے وغیرہ۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کفار مکہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی جا رہی تھی تو قریش کے ایک سردار نضر بن حارث نے قریش کے لوگوں سے کہاکہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہیں چلے گا۔ یہ شخص تمھارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمھارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے، آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں؟ کیا لوگ شعر و شاعری اور جنوں کی کیفیات سے ناواقف ہیں؟ ان الزامات میں سے آخر کون سا الزام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتا ہے جو کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو ان کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے؟ ٹھہرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں ۔
اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا، اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لاکر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنی شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور وہ ان کہانیوں میں کھو جائیں۔ (سیرت ابن ہشام)۔ ابن عباسؓ نے اس پر مزید اضافہ یہ کیا ہے کہ نضر بن حارث نے اس مقصد کے لیے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کے متعلق وہ سنتا کہ نبی کریمؐ کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی ایک لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سنا تاکہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل اُدھر سے ہٹ جائے۔
۔کفار کی اس تدبیر کا نتیجہ تھا کہ نبی کریمؐ کو نبوت عطا ہونے کے بعد پانچ سال تک کسی مجمع عام میں قرآن سنانے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ کفار کی سخت مزاحمت اس میں مانع تھی۔ پانچ سال بعد رمضان ۵ نبوی میں ایک روز آپؐ حرم پاک میں جہاں قریش کے لوگوں کا ایک بڑا مجمع موجود تھا یکایک تقریر کرنے کھڑے ہو گئے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورہ نجم کی صورت میں آپ کی زبان پر خطبہ جاری ہو گیا۔ اس کلام کی تاثیر کا یہ حال تھا کہ جب آپ نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کا ہوش ہی نہ رہا اور جب اس سورہ کا آخری سجدے کی آیت پر اختتام ہوا تو نبی کریمؐ نے سجدہ فرمایا تو آپ کے ساتھ سارے کفار بھی سجدے میں گر گئے۔(بخاری و مسلم)یہ قرآن کی اثر انگزیزی کا صریح معجزہ تھا۔
۔حضرت عمرؓکے قبولِ اسلام کا واقعہ بھی قرآن کی اثر انگیزی کا نتیجہ تھا۔ ان کے ایمان لانے کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ نبی کریم ؐ کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستے میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمھاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ سیدھے اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں ان کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور بہنوئی سعیدؓ بن زید بیٹھے ہوئے حضرت خبابؓ بن ارت سے ایک قرآنی صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔حضرت عمرؓ کے آتے ہی ان کی بہن نے صحیفہ فوراً چھپا لیا۔ مگر حضرت عمرؓ اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انھوں نے پہلے کچھ پوچھ گچھ کی، اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کر دیا۔بہن نے بچانا چاہا تو انھیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ آخر کار بہن اور بہنوئی نے کہا ہاں ہم مسلمان ہو چکے ہیں تم سے جو کچھ ہو سکے کر لو۔ حضرت عمرؓ اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہو گئے اور کہنے لگے،مجھے بھی وہ چیز دکھائو جو تم پڑھ رہے تھے۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کر لو اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ حضرت عمرؓ نے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا جس میں سورہ طہٰ لکھی ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے ان کی زبان سے نکلا ، ’’کیا خوب کلام ہے‘‘۔یہ سنتے ہی حضرت خبابؓ بن ارت جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے، باہر آگئے اور کہا کہ ’’بخدا، مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے دین کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا۔ کل ہی میں نے نبی کریمؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا ابوالحکم بن ہشام (ابوجہل) یا عمر بن خطاب، دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنا دے۔ پس اے عمر اللہ کی طرف چلو، اللہ کی طرف چلو‘‘۔اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور اسی وقت حضرت خبابؓ کے ساتھ جا کر حضرت عمرؓ نے نبی کریمؐ کی خدمت میں اسلام قبول کر لیا۔ یہ ۵ نبوی میں ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ہے۔
۔ اسی طرح حضرت جبیر بن مطعم کے ایمان لانے کا واقعہ وہ خود اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مدینہ طیبہ اس لیے آیا کہ رسول اللہ ؐ سے جنگ بدر کے ان ستر قیدیوں کے بارے میں گفتگو کروں جو اس وقت آپ کی تحویل میں تھے۔ میں مسجد نبوی کے باہر پہنچا تو رسول اللہؐ مغرب کی نماز میں سورہ طور کی تلاوت فرما رہے تھے اور آواز مسجد سے باہر پہنچ رہی تھی۔ جب یہ آیات پڑھیں۔ ’ان عذاب ربک لواقع مالہ من دافع‘(بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں)تو اچانک میری یہ حالت ہوئی کہ گویا میرا دل خوف سے پھٹ جائے گا۔میں نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ مجھے اس وقت یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میں اس جگہ سے ہٹ نہیں سکوں گا کہ مجھ پر عذاب آجائے گا۔‘‘(قرطبی)
۔ نبی کریم ؐکے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق مشہور تابعی محمد بن کعب القرظی کے حوالہ سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے دوسرے گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہؓ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ اس موقع پر ایک سردار قریش عتبہ بن ربیعہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں۔ شاید وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کر لیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آجائیں۔ سب حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور عتبہ اٹھ کر نبی کریمؐ کے پاس جا بیٹھا۔ آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا ’’بھتیجے تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمھیں معلوم ہے ، مگر تم اپنی قوم پر بڑی مصیبت لے آئے ہو۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھہرایا۔ قوم کے دین اور ان کے معبودوں کی برائی کی اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے۔ اب ذرا میری بات سنو، میں کچھ تجویزیں تمھارے سامنے رکھتا ہوں، ان پر غور کرو۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کر لو۔‘‘
رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ابوالولید! آپ کہیں ، میں سنوں گا۔‘‘
اس نے کہا ’’بھتیجے یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے، اس سے اگر تمھارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مال دار ہو جائو۔ اگر اس سے بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں، کسی معاملہ کا فیصلہ تمھارے بغیر نہ کریں گے۔ اگر بادشاہی چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں۔ اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطباء بلاتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمھارا علاج کراتے ہیں‘‘۔
عتبہ یہ باتیں کر رہا تھا اور حضورؐ خاموش سنتے رہے۔ پھر آپ نے فرمایا۔ ’’ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا ، کہہ چکے؟‘‘
اس نے کہا ’’ہاں‘‘۔
آپ نے فرمایا، ’’اچھا اب میری سنو۔ ‘‘ اس کے بعد آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورہ حم السجدہ کی تلاوت شروع کی۔ عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیک کر غور سے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت نمبر ۳۸) پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا، پھر سر اٹھا کرفرمایا ’’اے ابوالولید، آپ نے میرا جواب سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام‘‘۔عتبہ اٹھ کر سردارانِ قریش کی مجلس میں چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا، خدا کی قسم عتبہ کا چہرا بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں جسے لے کر یہ گیا تھا۔ پھر وہ جب آ کر بیٹھا۔ لوگوں نے کہا، کیا سن آئے؟ اس نے کہا ، ’’بخدا میں نے ایسا کلام سنا جو اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ خدا کی قسم نہ یہ شعر ہے، نہ سحر ہے، نہ کہانت۔ اے سردارانِ قریش میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا۔فرض کرو، اگر عرب اس پر غالب آگئے تو تم اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے بچ جائو گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر وہ غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمھاری بادشاہی اور اس کی عزت تمھاری عزت ہی ہو گی‘‘۔سردارانِ قریش اس کی بات سنتے ہی بول اٹھے۔ ’’اے ابوالولید آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا‘‘۔عتبہ نے کہا ’’میری جو رائے تھی وہ میں نے تمھیں بتا دی، اب تمھارا جو ہی چاہے کرتے رہو۔‘‘
۔ حضرت عمروؓ بن عثمان اپنے والد عثمان ؓ بن عفان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ اُرویٰ بنت عبد المطلب (نبیؐ کی پھوپھی ) کے پاس ان کی بیمار پرسی کے لیے گیا تو وہاں حضورؐ بھی تشریف لے آئے ۔ میں آپ ؐ کی طرف غور سے دیکھنے لگا تو آپ ؐنے مجھ سے پوچھا:’’ اے عثمان ! تم اس طرح مجھے کیوں گھور رہے ہو ؟‘‘ میں نے کہا :’’ میں اس بات پر حیران ہوں کہ آپ کا ہمارے ہاں بڑا مرتبہ ہے لیکن لوگ آپؐ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں ‘‘۔یہ سن کر آپؐ نے فرمایا : لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ۔ اللہ گواہ ہے کہ میں یہ سن کر کانپ گیا ۔ پھر آپؐ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :وفی السماء رزقکم وما توعدون فورب السماء والارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون۔(الذاریات)
’’اور آسمان ہی میں ہے تمھارارزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔ پس قسم ہے آسمان اور زمین کے رب کی ! یہ بات حق ہے ۔ ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو ‘‘۔ پھر حضورؐ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے ۔ میں بھی آپ ؐ کے پیچھے چل دیا اور پھر آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوا(الاستیعاب،ج۲،ص۲۲۵،بحوالہ حیاۃ الصحابہ،ج،ا،ص۸۳)
۔ابن اسحاق کے مطابق حضرت ابو بکرؓ نے مسلمان ہونے کے بعد حضرت زبیر ؓ بن عوام ، حضرت عثمان ؓ بن عفان ، حضرت طلحہ ؓ بن عبید اللہ ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، اور حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف کو تبلیغ کی اور انہیں لے کر خدمت رسولؐ میں حاضر ہوئے ۔ آپ ؐ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا ۔ انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور انہیں اسلام کے حقوق بتائے ۔ وہ سب ایمان لے آئے ( مسند احمد ، ابو دائود ، طبقات ابن سعد ، ج۵،ص۵۱۰، ابلدایہ ، ج۵ص۳۲)
۔ابن اسحاق ہی کی روایت ہے کہ قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمر ومکہ گئے تو قریش کے چند آدمی ان سے ملے اور انہیں کہا کہ ہماری قوم کے محمدؐ نامی شخص سے کوئی بات نہ کرنا ۔ وہ ایسا جادو اثر کلام رکھتا ہے کہ جس کے ذریعے اس نے باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان جدائیاں ڈال دی ہیں۔ انہوں نے اتنا اصرار کیا کہ طفیل دوسی کے بقول: میں نے حضورؐ کے کلام سے بچنے کے لیے کانوں میں روئی ٹھونس لی اور آپ ؐ سے دور رہنے کی کوشش کی ۔ ایک صبح جب حضورؐ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو میں بھی آپ ؐ کے قریب کھڑا ہو گیا ۔ تمام تر احتیاط کے باوجود اللہ نے مجھے آپؐ کی تلاوت کے الفاظ سنا ہی دیے۔ مجھے وہ کلام بہت ہی بھلا محسوس ہؤا۔ میں نے اپنے دل میں کہا : ’’ میری ماں مجھے روئے ! میں ایک قبیلے کا سردار ہوں ، خود شاعر ہوں ، اچھے برے کام میں تمیز کر سکتا ہوں ، کیا حرج ہے کہ میں محمدؐ کی بات سنوں۔ دل لگتی بات ہو گی تو قبول کر لوں گا ۔ کوئی زبردستی تو میرے ساتھ کر نہیں سکتا ۔ چنانچہ میں خدمت رسولؐ میں حاضر ہو گیا ۔ اپنی روداد سنانے کے بعد عرض کی :’’ آپؐ اپنی دعوت میرے سامنے پیش کیجیے !‘‘ حضورؐ نے میرے سامنے اسلام کو پیش کیااور قرآن سنایا ۔ اللہ کی قسم میں نے اس سے پہلے اس سے زیادہ عمدہ کلام اور انصاف والی بات نہیں سنی تھی ، چنانچہ میں کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا ۔(دلائل النبوہ البیہقی،ص۷۸،طبقات ابن سعد ، ج۴،ص۲۳۷،الاصابہ،ج ۲،ص۲۲۵)
۔ابن اسحاق کے مطابق حبشہ کے بیس عیسائیوں کا وفد حضورؐ کے پاس صحن حرم میں حاضر ہوأ۔ رسولؐ اللہ سے جو سوالات وہ کرنا چاہتے تھے ، جب کر چکے تو آپ ؐ نے انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ جب انہوںنے تلاوت قرآن سنی تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انہوں نے آپ ؐ کی نبوت کی تصدیق کی ، ایمان لے آئے ۔ جب وہ جانے لگے تو راہ میں ابو جہل نے انہیں دین اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کی لیکن انہوںنے کہا کہ ہم جاہلوں سے نہیں الجھتے تو اللہ نے سورہ قصص کی آیت ۵۲ اور ۵۵ نازل فرما کر ان کی تعریف فر مائی :واذا یتلی علیھم قالوا امنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین۔
’’ اور جب انہیں قرآن سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں ‘‘۔( سیرۃ ابن ہشام ، ص۳۳۸۔۳۳۹)
۔حضرت علی کی ایک طویل روایت ہے۔ تلخیصاً ذکر ہے کہ بعثتِ نبوی کے دسویں سال حج کے موقع پر حضورؐ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت علی ؓ کے ہمراہ منیٰ میں تشریف لے گئے ۔ آپ ؐ قبیلہ بنو شیبان کے خیمے میں پہنچے ۔ باہمی تعارف کے بعد حضورؐ نے انہیں توحید و رسالت کے قبول کرنے اور اپنی حمایت کرنے کی دعوت دی تو قبیلہ کے ایک سردار مفروق بن عمرو نے کہا : ’’ اے قریشی بھائی آپ مزید کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟‘‘ آپ نے اس کے سوال کے جواب میں سورۃ الانعام کی آیات ۱۵۱ تا ۱۵۳ تلاوت فرمائیں ۔ جن کا ترجمہ ہے :’’ کہو ! کہ آئو میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سنائوں جو تمہارے رب نے تم پر پابندیاں عائد کی ہیں ۔ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے حسن سلوک کرتے رہنا ، ناداری کے باعث اپنی اولاد قتل نہ کرنا کیونکہ تمہیں بھی اور انہیں بھی رزق ہم ہی دیتے ہیں اور بے حیائی خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ ، اس کے پاس نہیں پھٹکنا اور کسی جان کو جس کے قتل کو اللہ نے حرام کردیا ہے ، قتل نہ کرنا سوائے حق کے ۔ ان باتوں کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تاکہ تم سمجھو اور مال یتیم کے پاس بھی ہرگز نہ جانا سوائے اس طریقہ کے جو پسندیدہ ہو حتیٰ کہ یتیم جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیںدیتے مگر ا س کی طاقت کے مطابق اور جب بات کہو انصاف کی کہو ، خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو ۔ اوراللہ کے عہد کوپورا کرو۔ ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصیحت پائو۔ نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہٰذا تم اسی راستے پر چلو اور راستوں پر نہ چلنا مبادا کہ اللہ کے راستے سے بھٹک جائو ۔ اللہ تمہیں ان باتوںکا حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیز گار بنو ‘‘ (الانعام۶:۱۵۱۔۱۵۳)
مفروق جسے اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز تھا اللہ کا کلام سن کر کہنے لگا :’’ اے قریشی بھائی! آپ مزید کس بات کی دعوت دیتے ہیں ؟ اللہ کی قسم یہ کلام جو تم نے سنایا ہے ، زمین والوں کا کلام نہیں ہے اور اگر یہ زمین والوں کا کلام ہوتا تو ہم اسے ضرور پہچان لیتے ‘‘۔ اب حضورؐ نے سورۃ النحل کی آیت۹۰ کی تلاوت کی :
’’ بے شک اللہ تمہیں انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ بے حیائی اور برے کاموںاورسر کشی سے منع کرتا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ‘‘۔ یہ سن کر مفروق نے کہا:اے قریشی بھائی ! اللہ کی قسم ! آپ نے بڑے عمدہ اخلاق اور اچھے اعمال کی دعوت دی۔
اس کے بعد قبیلہ کے دوسرے سرداروں بانی بن قبیصہ اورمثنیٰ بن حارثہ نے بھی آپؐ کی دعوت اور قرآن کی عظمت کا اعتراف کیا ۔ البتہ انہوں نے اپنی علاقائی اور قبائلی مجبوریوں کے پیش نظرغور و فکر کی مہلت مانگی اور حضورؐ نے بھی ان کی سچائی پر مبنی بات کو سراہا ( چند سال بعد یہ قبیلہ مسلمان ہوا اور ان کے سردار مثنیٰ بن حارثہ نے ایک کمانڈر کی حیثیت سے عراق اور ایران کی فتوحات میں بنیادی کردار ادا کیا )۔ بنو شیبان کے بعد حضورؐ اوس و خزاج کی مجلس میں پہنچے ۔ ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور وہاں بھی قرآن کی تلاوت کی۔ مجلس سے اٹھنے سے پہلے ہی نعمان بن شریک اور دیگر کئی افراد مشرف بہ اسلام ہوئے (بیہقی، حاکم، ابو نعیم، فتح الباری ، ج ۷، ص۱۵۲،سیرۃ ابن کثیر ، ج۲،ص۱۲۹)
۔ابن اسحاق کے مطابق سوید بن صامت حج کے لیے یثرب سے مکہ آئے ۔ ان کے حسب نسب، جسمانی قوت اور شعر و شاعری میں پختگی کے باعث ان کی قوم انہیں ’’ الکامل‘‘ کہتی تھی ۔ رسول ؐ اللہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو یہ کہنے لگے :’’ غالباً آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی سے ملتا جلتا ہے جو میرے پاس ہے ‘‘۔ آپ نے پوچھا : ’’ تمہارے پاس کیا ہے ؟ سوید نے کہا :’’ حکمت لقمان ‘‘ ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ سنائو ۔ انہوں نے سنایا تو آپؐ نے اس کی تعریف کی اور ساتھ فرمایا : ’’ میرے پاس اس سے بھی زیادہ عمدہ کلام ہے جو اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے ، وہ ہدایت ہے اور نور ‘‘۔ اس کے بعد آپ ؐ نے قرآن کا کچھ حصہ تلاوت کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی ۔ یہ سن کر سوید بولے :’’ یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے ‘‘ اور مسلمان ہو گئے (ابن ہشام ، ص:۳۷۲۔۳۷۴)
۔خبیب بن عبد الرحمن کی روایت ہے کہ حضرت اسعد ؓبن زرارہ، اور حضرت ذکوانؓ بن عبد قیس، سردار قریش عتبہ بن ربیعہ سے اپنا ایک فیصلہ کروانے کے لیے یثرب سے مکہ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے نبی ؐ کے بارے میں کچھ سنا تو وہ دونو ں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ ؐ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا ۔ وہ دونوں مسلمان ہو گئے او رعتبہ بن ربیعہ کے پاس بھی نہیں گئے ،واپس مدینے آگئے ۔ مدینہ میں یہ اولین مسلمان تھے (طبقات ابن سعد ، ج ۳، ص۳۴۷)۔
۔ابن اسحاق کے مطابق محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ ان کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو شہل کے کچھ نوجوان انس بن رافعہ کی سربراہی میں یثرب سے مکے پہنچے تاکہ قبلہ خزرج کے مقابلے کے لیے قریش کے ساتھ حلیفانہ معاہدہ کریں ۔ اللہ کے رسولؐ کوجب ان کی آمد کی خبر ہوئی تو آپؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا : ’’ تم جس کا م کے لیے آئے ہو ، میں تمہیں اس سے بھی بہتر بات نہ بتائوں ؟‘‘ انہوں نے کہا :’’ وہ کون سی بات ہے ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا مجھے اللہ نے بندوں کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ میں انہیں ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ اللہ نے مجھ پر کتاب نازل کی ہے ۔ پھر آپؐ نے اسلام کی خوبیوں کا ذکر فرمایا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا ۔ حضرت ایاس ؓ بن معاذ، جو کہ ابھی نو عمر لڑکے تھے ، نے کہا :’’ اے میری قوم! اللہ کی قسم ! تم جس کام کے لیے آئے ہو ، واقعی یہ بات اس سے بہتر ہے ، اگرچہ باقی لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا لیکن حضرت ایاسؓ نے خاموشی سے اسلام قبول کرلیا( مسند احمد ، طبرانی ، کنزالعمال، ج ۷،ص۱۱، سیرت ابن ہشام ، ص۳۷۴)۔
۔طبرانی نے حضرت عروہ سے مرسل روایت بیان کی ہے کہ زمانہ حج میں یثرب کے بنو مازن کے حضرت معاذؓ بن غفر اور حضرت اسعد ؓ بن زرارہ ، بنوزریق کے حضرت رافعؓ بن مالک اور حضرت ذکوانؓ بن عبدالقیس کے حضرت ابو الہیثمؒ بن تیہاںاور بنو عمرو بن عوف کے حضرت عویم بن ساعدہؓ مکہ گئے ۔ حضور ؐ نے ان کے سامنے اپنی نبوت پیش کی ، انہیں قرآن پڑھ کر سنایا ۔ جب انہوں نے آپ کی بات سنی تو خاموش ہو گئے ۔ جب ان کے دل آپؐ کی دعوت پر مطمئن ہو گئے تو انہوں نے آپ کی تصدیق کی اور اسلام قبول کیا ( حیاۃ الصحابہ ، ج ۱،ص۴۸۲)۔
اس روایت سے معلوم ہؤا کہ قرآ ن سننے کا یہ اثر ہوأ کہ سننے والے :(۱) خاموش ہو گئے (۲) ان کے دل دعوت پر مطمئن ہو گئے اس لیے کہ دلوں کا اطمینان ذکرالٰہی میں ہے اور قرآن سب سے بڑا ذکر ہے۔(۳)نہ صرف تصدیق کی بلکہ آپ ؐ کی رسالت پر ایمان لائے۔
۔حضرت ام سعد بنت سعد ربیع ؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ یثرب کے کچھ لوگوں کے پاس پہنچے جو منیٰ میں عقبہ کی گھاٹی کے پاس بیٹھے ہوئے اپنے سر منڈوا رہے تھے ۔ حضورؐ نے ان کے پاس بیٹھ کر انہیں اللہ کی دعوت دی ۔ انہیں قرآن پڑھ کر سنایا ۔ چنانچہ ان لوگوںنے اسلام قبول کرلیا ( ابو نعیم ، دلائل النبوہ، ص۱۰۵)۔
۔حضرت عقیلؓ بن ابی طالب سے مروی ایک طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ منیٰ کے دنوں میں جمرۂ عقبہ کے پاس رات کے وقت اوس و خزرج کے چھ آدمیوں سے حضورؐ کی ملاقات ہوئی ۔ آپ ؐ نے انہیں اللہ کی عبادت اور دین اسلام کی نصرت کی دعوت دی انہوں نے آپ ؐ سے وحی الٰہی سننے کی خواہش کی تو آپؐ نے سورۂ ابراہیم کی آیت۳۵ تا ۵۲ واذ قال ابراہیم رب اجعل سے لے کر آخر تک پڑھ کر انہیں سنائی۔جب انہوں نے قرآن سنا تو ان کے دل نرم پڑ گئے اور اللہ کے حضور عاجزی کرنے لگے اور انہوں نے آپؐ کی دعوت قبول کرلی ۔
۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اثر انگیزی کی ایک اور مثال ایک بے جان چیز پہاڑ کے متعلق دی ہے جسے ہم پوری طرح محسوس تو نہیں کر سکتے لیکن اس سے قرآن کی عظمت اور رب کریم کے جلال کا اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں۔ فرمایا:
’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ ان پر غور کریں۔‘‘(الحشر ۲۱)
یہی بات قرآن مجید میں دوسری جگہ اس طرح کہی گئی ۔
’’ ہم نے امانت (قرآن) کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈرگئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا ۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے (الاحزاب۔۷۲)۔
حوالہ جات: قرآن کا معجزہ ادارہ بتول ، ترجمان القرآن نومبر2020
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x